div { font-family: Helvetica, Arial, sans-serif; box-sizing: border-box; } .timeline { width: 400px; } .timeline .timeline-item { width: 100%; } .timeline .timeline-item .info, .timeline .timeline-item .year { color: #eee; display: block; float: left; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item.close .info, .timeline .timeline-item.close .year { color: #ccc; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item .year { font-size: 24px; font-weight: bold; width: 22%; } .timeline .timeline-item .info { width: 100%; width: 78%; margin-left: -2px; padding: 0 0 40px 35px; border-left: 4px solid #aaa; font-size: 14px; line-height: 20px; } .timeline .timeline-item .marker { background-color: #fff; border: 4px solid #aaa; height: 20px; width: 20px; border-radius: 100px; display: block; float: right; margin-right: -14px; z-index: 2000; position: relative; } .timeline .timeline-item.active .info, .timeline .timeline-item:hover .info { color: #444; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item.active .year, .timeline .timeline-item:hover .year { color: #9DB668; } .timeline .timeline-item .marker .dot { background-color: white; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; display: block; border: 4px solid white; height: 12px; width: 12px; border-radius: 100px; float: right; z-index: 2000; position: relative; } .timeline .timeline-item.active .marker .dot, .timeline .timeline-item:hover .marker .dot { -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; background-color: #9DB668; box-shadow: inset 1px 1px 2px rgba(0, 0, 0, 0.2); } $(".timeline-item").hover(function() { $(".timeline-item").removeClass("active"); $(this).toggleClass("active"); $(this).prev(".timeline-item").toggleClass("close"); $(this).next(".timeline-item").toggleClass("close"); }); Testing

Tuesday, November 8, 2016

پیش لفظ
اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے .
(البرٹ آئن سٹائن )
کیا ایک دن یہ بات ممکن ہو سکے گی  کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے  گزر سکیں ؟ کیا  ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے ؟کیا ہم موجود ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہوکر غیر مرئی(Invisible) ہو  سکیں  گے؟کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہونے گے کہ  اشیاء کو صرف  اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟

میں اپنے بچپن سے ہی درج بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا .دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا  تو مجھ پر،  وقت میں ممکنہ سفر(Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed -  )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی. جادو ،  انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے .انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کو شروع کیا .

مجھےوہ وقت  یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن(Flash Gordon) ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا  . ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا  اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین(Dale Arden)  کے جوکھموں  اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مستقبل کی طرزیات(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر  عش عش کر اٹھتا تھا. کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا  کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں  .اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا ہی کھول کر رکھ دی . یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آجاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جاکر اس کے عجیب میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا . ان  تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے .

 پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ خلا کہ میں ہی صرف اکیلا نہیں تھا . کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی  . عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا . ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف  اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا .آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا .کارل ساگاں(Carl Sagan)  جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف  تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس(Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی .   جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا .

جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں  کرتے تھے. آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کودیکھا  ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا . میں نے اپنے آپ سے سوال کیا  ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل  کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی. مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر چیز کے نظریئے  " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا . اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ، اور اسی چیز  نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی . میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے  میں پرویا جا سکے.

 جب میں نے  شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو چلایا جا سکے. ڈاکٹر زرکوف   کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا  ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo)کیا جا سکتا تھا  اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا. جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں  کا  بھی وجود نہیں ہوتا .
         
بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں  یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں . شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے . حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو  گلے لگانا ہوتا ہے .

بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے  ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان  کو جاننے کی کوشش کروں . جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی طرزیات  کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا  اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں . میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا . اور پھر میں نے یہ ہی کیا .

میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا . میں ویسٹنگ  ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا  سریا  حاصل کیا .کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا . آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ  برقی مُسرع(اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو  انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ  میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ  مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا . مقصد یہ تھا کہ ایک گیما  شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے.

میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس  فیئر میں جگہ دلوا دی  اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا  جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا  اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا .

آج مجھے سائنسی کہانیوں کے   مصنفوں اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے  اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننے چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے .

بطور طبیعیات دان ، اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ ناممکن ایک نسبتی اصطلاح (Relative Term)ہے . شعور کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری استانی نے دیوار پر زمین کے نقشے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا . کیا یہ ایک عجیب اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ساحل ایک دوسرے سے ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے کہ  آڑا کٹا معمہ(Jigsaw Puzzle)؟ کچھ سائنس دان بہرحال اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ شاید یہ کبھی ایک ہی بڑے وسیع بر اعظم کا حصّہ تھے . مگر مجھے ان کی  یہ بات کافی بیوقوفانہ  لگتی ہے   کوئی بھی طاقت اتنی توانا نہیں ہوسکتی کہ ان  دو عظیم بر اعظموں کوایک دوسرے سے  دھکیل کر دور کر سکے . ایسا سوچنا ہی ناممکن ہے . انہوں نے نتیجہ بھی  اخذ کر لیا تھا .

اگلے سال ہم نے ڈائنو سارس کا مطالعہ کیا .میرے استاد نے کہا ،کیا یہ بات بہت عجیب نہیں ہے کہ ڈائنو سارس زمین پر کروڑوں سال حکمرانی کرتے رہے اور ایک دن سب کے سب غائب ہو گئے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں مر گئے . کچھ ماہر رکازیات(Paleontologist) سمجھتے ہیں کہ شاید خلاء میں سے آتے ہوئے کسی شہابیے نے ان سب کی جان لے لی  مگر یہ بات ناممکن ہے ایسا تو سائنسی قصّوں میں ہی ہوتا ہے .

آج ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ارضی سختائے ہوئے حصّوں (Plate Tectonics)کے ذریعہ بر اعظم حرکت کرتے ہیں  اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ ٦.٥ کروڑ سال پہلے ایک دیو قامت شہابیہ(Meteor) جس کا حجم چھ میل کا تھا  اس نے زمین سے ٹکرا کر  اس کی سطح پر رہنے والے  ڈائنو سارس اور دوسری  پائی جانے والی حیات کا خاتمہ کر دیا تھا . میں نے اپنی  اس کوتاہ عرصہ حیات میں ناممکن نظر آنے والی چیزوں کو بار بار سائنسی حقیقت بنتے ہوئے دیکھا ہے . لہٰذا کیا  یہ سوچنا  ممکن ہے کہ ہم  مستقبل میں کسی ایک  دن اپنے آپ کو ایک جگہ سے  دور دراز  دوسری جگہ فی الفور منتقل (Teleport)کر سکیں  ، یا کوئی ایسا خلائی جہاز بنا سکیں  جو ایک دن ہمیں نوری برس (Light Year)کے فاصلوں پر موجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں مدد کر سکے ؟

عام طور پر کوئی بھی ایسا کارنامہ آج کے طبیعیات دانوں کی نظر میں ناممکن ہے . ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والی چند صدیوں میں ممکن ہو سکے؟ یا آنے والی دس ہزار برسوں میں جب طرزیات اور زیادہ جدید ہو جائے ؟ یا پھر دسیوں لاکھ سال گزرنے کے بعد ؟ اس کو ذرا دوسری طرح سے سوچیں ، اگر ہمارا سامنا کسی طرح سے ایک ایسی تہذیب (Civilization)سے ہوتا ہے جو ہم سے دس لاکھ سال آگے ہو  تو کیا ان کی روزمرہ کی طرزیات ہمیں جادو لگیں گی ؟ اس کتاب کی گہرائی میں ایک سوال ہر جگہ نظر آئے گا ،  کیا صرف اس لئے کوئی چیز آنے والی صدیوں یا لاکھوں برس کے مستقبل میں  ناممکن رہے گی کیونکہ ہم اس کو دور حاضر میں ناممکن سمجھتے ہیں ؟

پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے  بالعموم اور کوانٹم نظریئے(Quantum Theory) اور عمومی اضافیت(General Relativity)  کی پیدائش کے بعد بالخصوص یہ بات ممکن ہو گئی ہے کہ  اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر ان طرزیات کا ہونا ممکن ہے تو کب تک  بھلا ایسا ہو سکے گا . مزید جدید نظریوں کے پیش کئیے جانے کے بعد جیسا کہ اسٹرنگ کے نظریئے نے سائنسی کہانیوں میں موجود کئی چیزوں مثلاً  وقت میں سفر اور متوازی کائناتوں کے بارے میں  بھی ماہرین طبیعیات کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے . ذرا آج سے ١٥٠ برس پہلے کے دور میں ان طرزیات کا تصوّر کیجئے جن کو اس وقت کے سائنس دانوں نے ناممکن قرار دے دیا تھا  مگر آج وہ ہماری زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہیں . جولس ورن نے ایک ناول  ١٨٦٣ءمیں لکھا تھا  جس کا نام پیرس ان دی ٹوینٹتھ  سنچری تھا .یہ  ناول  لکھےجانے  کے بعد ایک صدی تک تالے میں بندرہا  اور اس وقت تک گمنامی کے اندھیروں  میں ڈوبا  رہا جب تک اس کو حادثاتی طور پر ورن کے پڑ پوتے نے دریافت نہیں کر لیا اور پہلی دفعہ یہ  ١٩٩٤ء میں شایع  ہوا. اس ناول  میں ورن نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ پیرس ١٩٦٠ء میں کیسا دکھائی دے گا . اس کے ناول میں ان طرزیات کی بھر مار ہے جو انیسویں صدی میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں ، جس میں فیکس مشین ، عالمگیر مواصلاتی نظام ، شیشے کی بلند و بالا عمارتیں ، تیل سے چلنے والی خود کار گاڑیاں اور تیز رفتار بالائی گزرگاہ والی ریل گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں .

اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ورن نے اس قدر صحت کے ساتھ پیشگوئی کیسے کر لیں تھیں . اس کی وجہ تھی  وہ سائنس کی دنیا میں غرق رہتا تھا  اور اپنے ارد گرد موجود سائنس دانوں کےافکار  سے فائدہ اٹھانا جانتا  تھا . سائنس کی بنیادی باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کرنے سے ہی اس نے ایسی چونکا دینے والی پیش گوئیاں کی تھیں .

نہایت ہی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ انیسویں صدی کے کچھ عظیم سائنس دانوں نے اس کے برخلاف سوچا اور بہت ساری طرزیات کو ناامیدی کی حد تک ناممکن قرار دے ڈالا . لارڈ کیلون (Lord Kelvin)، جو شاید وکٹورین دور کے سب سے ممتاز طبیعیات دان تھے (ان کو آئزک نیوٹن کے پہلو میں ویسٹ منسٹر ، ایبی میں دفن کیا ہوا ہے ) نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ "ہوا سے بھاری "کوئی بھی چیز جیسا کہ ہوائی جہاز   کو بنانا ممکن نہیں ہوگا . ان کا خیال تھا کہ ایکس ریز(X-rays) ایک افوہ ہے اور ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا . لارڈ ردرفورڈ (Lord Rutherford) جس نے جوہر کا مرکزہ دریافت کیا تھا  انہوں نے جوہری بم کو چاند کی روشنی کے مماثل دے کر اس کے بنانے کے امکان کو ہی مسترد کردیا تھا . انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر یا سنگ جادو (جس کو فلاسفر اسٹون بھی کہتے ہیں ) – ایک ایسی چیز جو سیسے کو سونے میں بدل دے - کی تلاش  کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا تھا . انیسویں صدی کی کیمیا ان عناصر مثلاً  سیسہ کے غیر متبدلانہ یا عدم تغیری کی  اساس پر کھڑی تھی. لیکن آج کے جوہری تصادم گروں کی مدد سے ہم  نظری اعتبار سے سیسے کے جوہروں کو سونے میں بدل سکتے ہیں . ذرا آج کے ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر  اور انٹرنیٹ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ وہ بیسویں صدی میں کیسے شاندار  ہو گئے ہیں .

کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب سیاہ شگافوں (بلیک ہولز) کو سائنسی قصّوں سے زیادہ کچھ اور سمجھا نہیں جاتا تھا . خود آئن سٹائن نے ١٩٣٩ءمیں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بلیک ہولز کبھی بھی نہیں بن سکتے . اس کے باوجود ہبل خلائی دوربین(Hubble Space Telescope) اور چاندرا ایکس رے دوربین (Chandra X-ray Telescope)نے خلاء میں موجود  ہزاروں بلیک ہولز کی نشاندہی کی ہے .

یہ طرزیات اس وجہ سے ناممکن سمجھی جاتی تھیں کہ اس وقت بنیادی طبیعیاتی قوانین اور سائنس  کا انیسویں صدی  کے دوران  اور بیسویں صدی کے اوائلی حصّے  میں دریافت نہیں ہوئے تھے . اس وقت سائنس کی معلومات خاص طور پر جوہری پیمانے پر خاصی  کم تھیں لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں تعجب نہیں کرنا  چاہئے کہ ان طرزیات  کو اس وقت ناممکن سمجھا گیا تھا .

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ ناممکنات پر سنجیدگی کے ساتھ  غور و فکر  کرنے سے کلی طور ناقابل توقع اور  گہرے  سائنسی میدان کے دروازے وا ہوگئے ہیں .مثال کے طور پر ایک صدی تک دائمی حرکی مشین(Perpetual Motion Machine) کی مایوس کن اور بے ثمر تلاش نے طبیعیات دانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ایسی کوئی بھی مشین بنانا ناممکن ہے. لیکن اس فضول سی کوشش میں وقت برباد کرنے کے نتیجے میں انہوں نے بقائے توانائی(Conservation of Energy) اور حر حرکیات  (Thermodynamics)کے تین قوانین کو حاصل کیا  . اس طرح سے ایک فضول دائمی حرکی مشین کی تلاش نے ایک بالکل نیا میدان حر حرکیات کا کھول دیا  جو  ایک طرح سے بھاپ کے انجن، مشینی دور اور جدید صنعتی سماج  کی بنیادوں  کا حصّہ بنا.

No comments:

Post a Comment

$(".timeline-item").hover(function() { $(".timeline-item").removeClass("active"); $(this).toggleClass("active"); $(this).prev(".timeline-item").toggleClass("close"); $(this).next(".timeline-item").toggleClass("close"); });