div { font-family: Helvetica, Arial, sans-serif; box-sizing: border-box; } .timeline { width: 400px; } .timeline .timeline-item { width: 100%; } .timeline .timeline-item .info, .timeline .timeline-item .year { color: #eee; display: block; float: left; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item.close .info, .timeline .timeline-item.close .year { color: #ccc; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item .year { font-size: 24px; font-weight: bold; width: 22%; } .timeline .timeline-item .info { width: 100%; width: 78%; margin-left: -2px; padding: 0 0 40px 35px; border-left: 4px solid #aaa; font-size: 14px; line-height: 20px; } .timeline .timeline-item .marker { background-color: #fff; border: 4px solid #aaa; height: 20px; width: 20px; border-radius: 100px; display: block; float: right; margin-right: -14px; z-index: 2000; position: relative; } .timeline .timeline-item.active .info, .timeline .timeline-item:hover .info { color: #444; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item.active .year, .timeline .timeline-item:hover .year { color: #9DB668; } .timeline .timeline-item .marker .dot { background-color: white; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; display: block; border: 4px solid white; height: 12px; width: 12px; border-radius: 100px; float: right; z-index: 2000; position: relative; } .timeline .timeline-item.active .marker .dot, .timeline .timeline-item:hover .marker .dot { -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; background-color: #9DB668; box-shadow: inset 1px 1px 2px rgba(0, 0, 0, 0.2); } $(".timeline-item").hover(function() { $(".timeline-item").removeClass("active"); $(this).toggleClass("active"); $(this).prev(".timeline-item").toggleClass("close"); $(this).next(".timeline-item").toggleClass("close"); }); Testing: November 2016

Tuesday, November 8, 2016

پیش لفظ
اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے .
(البرٹ آئن سٹائن )
کیا ایک دن یہ بات ممکن ہو سکے گی  کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے  گزر سکیں ؟ کیا  ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے ؟کیا ہم موجود ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہوکر غیر مرئی(Invisible) ہو  سکیں  گے؟کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہونے گے کہ  اشیاء کو صرف  اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟

میں اپنے بچپن سے ہی درج بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا .دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا  تو مجھ پر،  وقت میں ممکنہ سفر(Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed -  )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی. جادو ،  انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے .انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کو شروع کیا .

مجھےوہ وقت  یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن(Flash Gordon) ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا  . ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا  اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین(Dale Arden)  کے جوکھموں  اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مستقبل کی طرزیات(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر  عش عش کر اٹھتا تھا. کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا  کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں  .اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا ہی کھول کر رکھ دی . یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آجاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جاکر اس کے عجیب میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا . ان  تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے .

 پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ خلا کہ میں ہی صرف اکیلا نہیں تھا . کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی  . عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا . ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف  اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا .آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا .کارل ساگاں(Carl Sagan)  جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف  تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس(Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی .   جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا .

جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں  کرتے تھے. آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کودیکھا  ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا . میں نے اپنے آپ سے سوال کیا  ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل  کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی. مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر چیز کے نظریئے  " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا . اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ، اور اسی چیز  نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی . میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے  میں پرویا جا سکے.

 جب میں نے  شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو چلایا جا سکے. ڈاکٹر زرکوف   کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا  ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo)کیا جا سکتا تھا  اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا. جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں  کا  بھی وجود نہیں ہوتا .
         
بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں  یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں . شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے . حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو  گلے لگانا ہوتا ہے .

بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے  ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان  کو جاننے کی کوشش کروں . جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی طرزیات  کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا  اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں . میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا . اور پھر میں نے یہ ہی کیا .

میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا . میں ویسٹنگ  ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا  سریا  حاصل کیا .کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا . آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ  برقی مُسرع(اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو  انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ  میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ  مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا . مقصد یہ تھا کہ ایک گیما  شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے.

میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس  فیئر میں جگہ دلوا دی  اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا  جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا  اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا .

آج مجھے سائنسی کہانیوں کے   مصنفوں اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے  اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننے چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے .

بطور طبیعیات دان ، اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ ناممکن ایک نسبتی اصطلاح (Relative Term)ہے . شعور کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری استانی نے دیوار پر زمین کے نقشے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا . کیا یہ ایک عجیب اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ساحل ایک دوسرے سے ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے کہ  آڑا کٹا معمہ(Jigsaw Puzzle)؟ کچھ سائنس دان بہرحال اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ شاید یہ کبھی ایک ہی بڑے وسیع بر اعظم کا حصّہ تھے . مگر مجھے ان کی  یہ بات کافی بیوقوفانہ  لگتی ہے   کوئی بھی طاقت اتنی توانا نہیں ہوسکتی کہ ان  دو عظیم بر اعظموں کوایک دوسرے سے  دھکیل کر دور کر سکے . ایسا سوچنا ہی ناممکن ہے . انہوں نے نتیجہ بھی  اخذ کر لیا تھا .

اگلے سال ہم نے ڈائنو سارس کا مطالعہ کیا .میرے استاد نے کہا ،کیا یہ بات بہت عجیب نہیں ہے کہ ڈائنو سارس زمین پر کروڑوں سال حکمرانی کرتے رہے اور ایک دن سب کے سب غائب ہو گئے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں مر گئے . کچھ ماہر رکازیات(Paleontologist) سمجھتے ہیں کہ شاید خلاء میں سے آتے ہوئے کسی شہابیے نے ان سب کی جان لے لی  مگر یہ بات ناممکن ہے ایسا تو سائنسی قصّوں میں ہی ہوتا ہے .

آج ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ارضی سختائے ہوئے حصّوں (Plate Tectonics)کے ذریعہ بر اعظم حرکت کرتے ہیں  اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ ٦.٥ کروڑ سال پہلے ایک دیو قامت شہابیہ(Meteor) جس کا حجم چھ میل کا تھا  اس نے زمین سے ٹکرا کر  اس کی سطح پر رہنے والے  ڈائنو سارس اور دوسری  پائی جانے والی حیات کا خاتمہ کر دیا تھا . میں نے اپنی  اس کوتاہ عرصہ حیات میں ناممکن نظر آنے والی چیزوں کو بار بار سائنسی حقیقت بنتے ہوئے دیکھا ہے . لہٰذا کیا  یہ سوچنا  ممکن ہے کہ ہم  مستقبل میں کسی ایک  دن اپنے آپ کو ایک جگہ سے  دور دراز  دوسری جگہ فی الفور منتقل (Teleport)کر سکیں  ، یا کوئی ایسا خلائی جہاز بنا سکیں  جو ایک دن ہمیں نوری برس (Light Year)کے فاصلوں پر موجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں مدد کر سکے ؟

عام طور پر کوئی بھی ایسا کارنامہ آج کے طبیعیات دانوں کی نظر میں ناممکن ہے . ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والی چند صدیوں میں ممکن ہو سکے؟ یا آنے والی دس ہزار برسوں میں جب طرزیات اور زیادہ جدید ہو جائے ؟ یا پھر دسیوں لاکھ سال گزرنے کے بعد ؟ اس کو ذرا دوسری طرح سے سوچیں ، اگر ہمارا سامنا کسی طرح سے ایک ایسی تہذیب (Civilization)سے ہوتا ہے جو ہم سے دس لاکھ سال آگے ہو  تو کیا ان کی روزمرہ کی طرزیات ہمیں جادو لگیں گی ؟ اس کتاب کی گہرائی میں ایک سوال ہر جگہ نظر آئے گا ،  کیا صرف اس لئے کوئی چیز آنے والی صدیوں یا لاکھوں برس کے مستقبل میں  ناممکن رہے گی کیونکہ ہم اس کو دور حاضر میں ناممکن سمجھتے ہیں ؟

پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے  بالعموم اور کوانٹم نظریئے(Quantum Theory) اور عمومی اضافیت(General Relativity)  کی پیدائش کے بعد بالخصوص یہ بات ممکن ہو گئی ہے کہ  اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر ان طرزیات کا ہونا ممکن ہے تو کب تک  بھلا ایسا ہو سکے گا . مزید جدید نظریوں کے پیش کئیے جانے کے بعد جیسا کہ اسٹرنگ کے نظریئے نے سائنسی کہانیوں میں موجود کئی چیزوں مثلاً  وقت میں سفر اور متوازی کائناتوں کے بارے میں  بھی ماہرین طبیعیات کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے . ذرا آج سے ١٥٠ برس پہلے کے دور میں ان طرزیات کا تصوّر کیجئے جن کو اس وقت کے سائنس دانوں نے ناممکن قرار دے دیا تھا  مگر آج وہ ہماری زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہیں . جولس ورن نے ایک ناول  ١٨٦٣ءمیں لکھا تھا  جس کا نام پیرس ان دی ٹوینٹتھ  سنچری تھا .یہ  ناول  لکھےجانے  کے بعد ایک صدی تک تالے میں بندرہا  اور اس وقت تک گمنامی کے اندھیروں  میں ڈوبا  رہا جب تک اس کو حادثاتی طور پر ورن کے پڑ پوتے نے دریافت نہیں کر لیا اور پہلی دفعہ یہ  ١٩٩٤ء میں شایع  ہوا. اس ناول  میں ورن نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ پیرس ١٩٦٠ء میں کیسا دکھائی دے گا . اس کے ناول میں ان طرزیات کی بھر مار ہے جو انیسویں صدی میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں ، جس میں فیکس مشین ، عالمگیر مواصلاتی نظام ، شیشے کی بلند و بالا عمارتیں ، تیل سے چلنے والی خود کار گاڑیاں اور تیز رفتار بالائی گزرگاہ والی ریل گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں .

اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ورن نے اس قدر صحت کے ساتھ پیشگوئی کیسے کر لیں تھیں . اس کی وجہ تھی  وہ سائنس کی دنیا میں غرق رہتا تھا  اور اپنے ارد گرد موجود سائنس دانوں کےافکار  سے فائدہ اٹھانا جانتا  تھا . سائنس کی بنیادی باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کرنے سے ہی اس نے ایسی چونکا دینے والی پیش گوئیاں کی تھیں .

نہایت ہی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ انیسویں صدی کے کچھ عظیم سائنس دانوں نے اس کے برخلاف سوچا اور بہت ساری طرزیات کو ناامیدی کی حد تک ناممکن قرار دے ڈالا . لارڈ کیلون (Lord Kelvin)، جو شاید وکٹورین دور کے سب سے ممتاز طبیعیات دان تھے (ان کو آئزک نیوٹن کے پہلو میں ویسٹ منسٹر ، ایبی میں دفن کیا ہوا ہے ) نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ "ہوا سے بھاری "کوئی بھی چیز جیسا کہ ہوائی جہاز   کو بنانا ممکن نہیں ہوگا . ان کا خیال تھا کہ ایکس ریز(X-rays) ایک افوہ ہے اور ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا . لارڈ ردرفورڈ (Lord Rutherford) جس نے جوہر کا مرکزہ دریافت کیا تھا  انہوں نے جوہری بم کو چاند کی روشنی کے مماثل دے کر اس کے بنانے کے امکان کو ہی مسترد کردیا تھا . انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر یا سنگ جادو (جس کو فلاسفر اسٹون بھی کہتے ہیں ) – ایک ایسی چیز جو سیسے کو سونے میں بدل دے - کی تلاش  کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا تھا . انیسویں صدی کی کیمیا ان عناصر مثلاً  سیسہ کے غیر متبدلانہ یا عدم تغیری کی  اساس پر کھڑی تھی. لیکن آج کے جوہری تصادم گروں کی مدد سے ہم  نظری اعتبار سے سیسے کے جوہروں کو سونے میں بدل سکتے ہیں . ذرا آج کے ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر  اور انٹرنیٹ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ وہ بیسویں صدی میں کیسے شاندار  ہو گئے ہیں .

کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب سیاہ شگافوں (بلیک ہولز) کو سائنسی قصّوں سے زیادہ کچھ اور سمجھا نہیں جاتا تھا . خود آئن سٹائن نے ١٩٣٩ءمیں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بلیک ہولز کبھی بھی نہیں بن سکتے . اس کے باوجود ہبل خلائی دوربین(Hubble Space Telescope) اور چاندرا ایکس رے دوربین (Chandra X-ray Telescope)نے خلاء میں موجود  ہزاروں بلیک ہولز کی نشاندہی کی ہے .

یہ طرزیات اس وجہ سے ناممکن سمجھی جاتی تھیں کہ اس وقت بنیادی طبیعیاتی قوانین اور سائنس  کا انیسویں صدی  کے دوران  اور بیسویں صدی کے اوائلی حصّے  میں دریافت نہیں ہوئے تھے . اس وقت سائنس کی معلومات خاص طور پر جوہری پیمانے پر خاصی  کم تھیں لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں تعجب نہیں کرنا  چاہئے کہ ان طرزیات  کو اس وقت ناممکن سمجھا گیا تھا .

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ ناممکنات پر سنجیدگی کے ساتھ  غور و فکر  کرنے سے کلی طور ناقابل توقع اور  گہرے  سائنسی میدان کے دروازے وا ہوگئے ہیں .مثال کے طور پر ایک صدی تک دائمی حرکی مشین(Perpetual Motion Machine) کی مایوس کن اور بے ثمر تلاش نے طبیعیات دانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ایسی کوئی بھی مشین بنانا ناممکن ہے. لیکن اس فضول سی کوشش میں وقت برباد کرنے کے نتیجے میں انہوں نے بقائے توانائی(Conservation of Energy) اور حر حرکیات  (Thermodynamics)کے تین قوانین کو حاصل کیا  . اس طرح سے ایک فضول دائمی حرکی مشین کی تلاش نے ایک بالکل نیا میدان حر حرکیات کا کھول دیا  جو  ایک طرح سے بھاپ کے انجن، مشینی دور اور جدید صنعتی سماج  کی بنیادوں  کا حصّہ بنا.

Thursday, November 3, 2016


نظریوں کی قبولیت کے چار مراحل ہوتے ہیں :


i. یہ بالکل بیکار ہے ، فضول ؛ 


ii. یہ دلچسپ ہے ، مگر ٹھیک نہیں ہے؛ 


iii. یہ سچ ہے ، مگر اہم نہیں ہے؛ 


iv. میں ہمیشہ سے یہی کہتا ہوں۔ 






- (جے بی ایس ہیلڈ ن ، ١٩٦٥ء ) 






آئزک ایسی موف کے کلاسک ناول "دی گاڈ دیم سیلو ز" میں ایک گمنام کیمیا دان حادثاتی طور پر ٢٠٧٠ء میں اپنے وقت کی سب سے عظیم ایجاد کر بیٹھتا ہے، وہ ایک ایسا الیکٹران پمپ ایجاد کر لیتا ہے جو لامحدود توانائی مفت میں پیدا کرتا ہے ۔ اس ایجاد کا اثر فوری اور بہت ہی گہرا ہوتا ہے ۔ اس کیمیا دان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس کو تاریخ کا عظیم سائنس دان گردانا جاتا ہے کیونکہ اس نے تہذیب کی توانائی کی پیاس کو بجھایا تھا۔ "وہ پوری دنیا کا سانتا کلاز اور الہ دین کا چراغ تھا۔ "ایسی موف نے لکھا۔ اس کی بنائی ہوئی کمپنی جلد ہی دنیا کی امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک بن جاتی ہے جو تیل، گیس ، کوئلے اور نیوکلیائی صنعتوں کے کاروبار کو ٹھپ کر کے رکھ دیتی ہے ۔ 





آئزک ایسی موف کے کلاسک ناول "دی گاڈ دیم سیلو ز" میں ایک گمنام کیمیا دان حادثاتی طور پر ٢٠٧٠ء میں اپنے وقت کی سب سے عظیم ایجاد لامحدود توانائی پیدا کرنے والا الیکٹرانک پمپ ایجاد کردیتا ہے 






دنیا اس مفت کی توانائی کے نشے میں ڈوب جاتی ہے اور تہذیب اس نئی ملنے والی طاقت کے نشے سے سرشار ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کارنامے کی خوشی منانے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ صرف ایک اکیلا طبیعیات دان ہی اس بات سے پریشان رہتا ہے ۔"یہ مفت کی توانائی کہاں سے آ رہی ہے؟" وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے ۔ آخر میں وہ یہ راز جان ہی جاتا ہے ۔ مفت کی توانائی ایک ہولناک قیمت کے بدلے میں مل رہی ہوتی ہے ۔ یہ توانائی خلاء میں ایک سوراخ میں سے آ رہی ہوتی ہے جو ایک متوازی کائنات سے جڑا ہوا ہوتا ہے ، اور پھر اچانک ہی توانائی کا سیلاب ہماری کائنات میں ایک زنجیری عمل شروع کر دیتا ہے ۔ نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں تباہ ہو جاتی ہیں اور سورج ایک سپرنووا میں بدل جاتا ہے اور یوں وہ زمین کے ساتھ ہی تباہ ہو جاتا ہے ۔ 






جب سے تاریخ لکھی گئی ہے ، موجدوں، سائنس دانوں کے مقدس جام جبکہ عطائیوں اور دھوکے بازوں کے افسانوں میں" جاودانی حرکی مشین "کا ذکر ملتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو توانائی کو ضائع کئے بغیر ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک بہتر ورژن ایک ایسا آلہ بھی ہوتا ہے جو اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے جو وہ استعمال کرتا ہے ، جیسا کہ الیکٹران پمپ تھا ، جو مفت کی لامحدود توانائی پیدا کرتا تھا۔ 


آنے والے وقتوں میں جب ہماری صنعتی دنیا سے بتدریج سستا تیل ختم ہو جائے گا تو صاف توانائی کے وافر ذرائع کو ڈھونڈھنے پر کافی دباؤ ہوگا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، گرتی ہوئی پیداوار ، بڑھتی ہوئی آلودگی ، ماحولیاتی تبدیلیاں سب کے سب قابل تجدید توانائی کی کھوج میں دلچسپی کو بڑھا رہی ہیں۔ آج چند موجد اس لہر پر سوار ہو کر لامحدود مفت کی توانائی کی امید دلا رہے ہیں اور اپنی ان ایجادوں کو سینکڑوں لاکھوں کی تعداد میں بیچنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مختلف موجد سامنے آتے رہتے ہیں جو سنسنی خیز دعوے کر کے ذرائع ابلاغ میں اکثر اگلے ایڈیسن کہلاتے ہیں۔ 






دائمی حرکی مشین کی شہرت چار دانگ پھیلی ہوئی ہے۔ دی سمسنز کی ایک قسط جس کا عنوان "دی پی ٹی اے ڈس بینڈ " تھا ، اس میں لیزا استادوں کی ہڑتال کے دوران اپنی ایک دائمی حرکی مشین بناتی ہے۔ اس وجہ سے ہومر سختی سے اس بات کا اعلان کرتا ہے ،" لیزا یہاں آؤ۔۔۔اس گھر میں ہم حر حرکیات کے قوانین کو مانتے ہیں !" 





سمسنز کی ایک قسط میں ہومر اعلان کرتا ہے کہ اس گھر میں حر حرکیات کے قوانین کو مانا جاتا ہے. 







ایک کمپیوٹر کے کھیل دی سمز ، زینو ساگا قسط Iاور II اور الٹیما IV: دی فالس پروفیٹ ،میں اور نکلوڈین کے پروگرام "انویڈر زم "، میں دائمی حرکی مشینوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ 






لیکن اگر توانائی اتنی قیمتی ہے ، تو پھر اس بات کی کیا امید ہے کہ کوئی دائمی حرکی مشین بنائی جا سکے ؟کیا ایسا آلہ بنانا واقعی ناممکن ہے ،یا ان کے بنانے میں ہمیں طبیعیات کے قوانین پر نظر ثانی کرنا پڑے گی ؟ 













توانائی کسی بھی تہذیب کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ دراصل انسانی تاریخ کو توانائی کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔99.9 فیصد انسانی وجود، قدیمی سماج خانہ بدوش تھے ، انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے خوراک کے لئے شکار کرتے تھے۔ ان کی زندگی وحشیانہ اور مختصر تھی۔ ہمارے پاس جو توانائی اس وقت موجود تھی وہ ایک ہارس پاور کے بیسواں حصّہ تھی یعنی کہ ہمارے پٹھوں کی طاقت۔ ہمارے آباؤ اجداد کی ہڈیوں کے تجزیہ سے زبردست ٹوٹ پھوٹ کے واضح ثبوت ملے ہیں ، جو روز مرہ زندگی میں جدوجہد کے نتیجے میں واقع ہوئے تھے۔ اوسط عمر ٢٠ سال سے بھی کم تھی۔ 






مگر آخری برفانی دور کے خاتمے کے بعد جو دس ہزار سال قبل پہلے ختم ہوا تھا ، ہم نے زراعت اور پالتو جانوروں کے طریقوں کو دریافت کر لیا تھا ، خاص طور پر گھوڑے کو ، جس کے نتیجے میں بتدریج ہماری توانائی ایک ہارس پاور سے دو ہارس پاور تک بڑھ گئی۔ اس سے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انقلاب آنے کی شروعات ہوئی۔ گھوڑے اور بیل سے ایک آدمی کے پاس اتنی توانائی آ جاتی تھی کہ وہ پورے میدان میں حل چلا سکے ، دس میل کا سفر ایک دن میں کر سکے اور سینکڑا ہا پونڈ وزنی چٹانوں یا غلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے۔ انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے پاس زائد توانائی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے شہروں کی بنیاد پڑی۔ زائد توانائی کا مطلب تھا کہ سماج فنکاروں ، ماہرین تعمیرات اور کاتب نویسوں کو پالنے کے قابل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں قدیمی سماج پھلے پھولے۔ جلد ہی عظیم سلطنتیں اور اہرام جنگلوں سے نمودار ہونے لگے۔ اوسط زندگی ٣٠ سال تک کی ہو گئی۔ 








آخری برفانی دور کا خاتمہ ایک مصّور کی نظر میں 



اس کے بعد ٣٠٠ برس پہلے انسانی تاریخ میں دوسرا عظیم انقلاب برپا ہوا۔ مشین اور بھاپ کی آمد کے ساتھ ہی ایک انسان کے پاس توانائی کی مقدار دسیوں ہارس پاور تک ہو گئی۔ بھاپ کے انجن کی توانائی کو قابو میں لا کر لوگ اب پورے کے پورے براعظموں کو چند دنوں میں پار کرنے لگے۔ مشینیں اب پورے کے پورے میدانوں میں ہل چلا سکتی تھیں ، سینکڑوں لوگوں کو ہزاروں میل کی دوری تک لے جا سکتی تھیں اور ہم اس قابل ہو سکے کہ بلند و بالا عمارتوں والے شہروں کو بنا سکیں۔ انیسویں صدی تک ایک امریکی کی اوسط عمر لگ بھگ ٥٠ برس کے پہنچ گئی تھی ۔ 









مشین اور بھاپ کی آمد کے ساتھ ہی ایک انسان کے پاس توانائی کی مقدار دسیوں ہارس پاور تک ہو گئی تھی۔ 



آج ہم انسانی تاریخ کے تیسرے عظیم انقلاب یعنی کہ اطلاعاتی انقلاب کے دوراہے پر موجود ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی ، بجلی اور طاقت کی حرص نے ہماری توانائی کی ضرورت کو آسمان سے باتیں کرنے والا بنا دیا ہے اور ہماری اضافی توانائی بہت ہی قلیل مقدار میں رہ گئی ہے۔ اب کسی بھی فرد کے لئے موجود توانائی کو ہزار ہا ہارس پاور میں ناپا جاتا ہے۔ ہم ایک کار جو ہزار ہا ہارس پاور کی ہوتی ہے اس کو یوں ہی ایک عام سے انداز میں لیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ توانائی کی اس بڑھتی ہوئی طلب نے توانائی کے عظیم ذرائع میں دلچسپی کو یکدم بڑھا دیا ہے اور ان ذرائع میں دائمی حرکی مشین بھی شامل ہے۔ 



دائمی حرکی مشین تاریخ کے آئینے میں 







دائمی حرکی مشین کی تلاش ایک قدیمی تلاش ہے۔ لکھی ہوئی تاریخ میں سب سے پہلی کوشش دائمی حرکی مشین کو بنانے کی بویریا (Bavaria) میں آٹھویں صدی میں شروع ہوئی۔ یہ اس ابتدائی مشین کا نمونہ تھی جس کی سینکڑوں مختلف قسموں نے آنے والے ایک ہزار برس میں بننا تھا ، یہ چھوٹے مقناطیسی سلسلوں پر مبنی تھی جو ایک پہیے سے منسلک تھے جیسا کہ فیرس کا پہیہ(Ferris Wheel)۔ یہ پہیہ زمین پر رکھے ہوئے ایک بڑے مقناطیس کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی پہیہ پر رکھا ہوا مقناطیس ساکن مقناطیس کے اوپر سے گزرتا تھا ، تو پہلے اس کو بڑا مقناطیس کھینچتا تھا اور پھر دفع کرتا تھا، جس کے نتیجے میں پہیے کو دھکا ملتا اور دائمی حرکت پیدا ہوتی۔ 









فیرس کا پہیہ 



ایک اور اختراعی نمونہ ١١٥٠ء میں ہندوستانی فلاسفر بھشکارا نے بنایا، اس نے ایک ایسے ہمیشہ چلنے والے پہیہ کی تجویز پیش کی تھی جس کے بیرونی گھیرے پر وزن کو لگا دیا جائے، کیونکہ اس طرح سے پہیہ غیر متوازن ہو کر گھومنے لگے گا۔ وزن سے اس طرح سے کام لیا جا سکے کہ وہ چکر کو پیدا کرنے کے بعد واپس اپنی جگہ پر آ جائے گا۔ بھشکارا کے دعوے کے مطابق اس بات کو دہرا کر کوئی بھی لامحدود کام مفت میں کروا سکتا ہے۔ 






بویرین اور بھشکارا دونوں کےدائمی حرکی مشین کے نمونوں میں اور ان کے بعد اسی طرح کے کئی اور چیزوں میں ایک چیز قدر مشترک تھی :کسی بھی قسم کا ایک پہیہ جو بغیر کسی توانائی کو خرچ کئے بغیر ایک چکر لگا لیتا تھا اور نتیجے میں فائدہ مند توانائی پیدا کرتا تھا ۔(احتیاط سے ان اختراعی مشینوں کی جانچ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں ہر چکر میں توانائی ضائع ہی ہوتی ہے یا اس سے کوئی مفید کام نہیں لیا جا سکتا۔) 





جوہان بیسسلر کی دائمی حرکی مشین کا نمونہ 







نشاط الثانیہ کے دور میں دائمی حرکی مشین کی تجویز میں اسراع پیدا ہوئی۔ ١٦٣٥ء میں سب سے پہلا پیٹنٹ ایک دائمی حرکی مشین کو دیا گیا۔ ١٧١٢ء میں جوہان بیسسلر (Johann Bessler)نے کچھ تین سو کے قریب مختلف نمونوں کا تجزیہ کیا اور ایک اپنا بھی نمونہ تجویز کیا۔( ایک قصّے کے مطابق ، اس کی ماسی نے بعد میں اس کی بنائی ہوئی مشین کو دھوکہ ثابت کر دیا تھا۔) نشاط الثانیہ کے عظیم مصوّر اور سائنس دان لیونارڈو ڈ ا ونچی بھی دائمی حرکی مشین میں دلچسپی لی تھی۔ اگرچہ اس نے عوام کے سامنے اس کی مخالفت کی تھی ، اور اس کا مقابلہ اس فضول تلاش سے کیا تھا جس میں لوگ پارس پتھر کو تلاش کرتے تھے ، اس کے باوجود خلوت میں اس نے بہت ہی اختراعی نوعیت کے خاکے اپنی کتاب میں بنائے ہوئے تھے جس میں خود سے دھکیلنے ، دائمی حرکی مشین ، کے خاکے بھی تھے۔ اس میں ایک مرکز گریز پمپ اور ایک چمنی کا جھنڈا استعمال کرکے بھٹی کے اوپر ایک سیخ خود بخود آ جاتی تھی ۔ 






١٧٧٥ء میں اس قدر نمونے تجویز کیے گئے تھے کہ پیرس کی رائل اکیڈمی آف سائنس کو مجبوراً اس بات کا اعلان کرنا پڑا کہ "وہ دائمی حرکی مشین کا مزید کوئی بھی نمونہ قبول نہیں کرے گی۔" 






آرتھر او رڈ –ہیوم (Arthur Ord-Hume) ، جو دائمی حرکی مشین کے ایک مورخ تھے وہ ان انتھک محنت کرنے والے موجدوں کے لاحاصل کام سے بے لوث لگن کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کا موازنہ قدیمی کیمیا دانوں سے کرتے ہیں۔ وہ درج کرتے ہیں "کیمیا دان بھی۔۔۔۔جانتے تھے کہ ان کو کب ہارنا ہے۔" 




فریبی اور دھوکے باز 







دائمی حرکی مشین کا پس پردہ محرک اتنا عظیم تھا کہ چکمے باز اور دھوکے بازوں کی چاندی ہو گئی تھی ۔١٨١٣ء میں چارلس ریڈہیفر (Charles Redheffer) نے نیویارک شہر میں ایک ایسی مشین کی نمائش کی جس نے لامحدود توانائی پیدا کرکے تماش بین کو حیران کر دیا تھا۔ (مگر جب رابرٹ فلٹون (Robert Fulton) نے اس مشین کا احتیاط کے ساتھ معائنہ کیا تو اسے ایک مخصوص تار سے بنی ہوئی پٹی، مشین کو چلاتی ہوئی نظر آئی۔ یہ تار ایک چھپے ہوئے آدمی سے جڑی ہوئی تھی جو ایک خمیدہ بالا خانے میں موجود تھا۔) 









١٨١٣ء میں چارلس ریڈہیفر کی بنائی ہوئی دائمی حرکی مشین 



سائنس دان اور انجنیئر بھی دائمی حرکی مشین میں غلطاں اور پیچاں تھے۔ ١٨٧٠ء میں سائنٹفک امریکن کے مدیر کو ای پی ولیز(E.P. Willis) نے ایک مشین بنا کر بے وقوف بنا دیا۔ اس رسالے نے اس خبر کو یوں شہ سرخی بنایا "اب تک کی ہونے والی عظیم دریافت۔" کچھ عرصے بعد ہی تفتیش کاروں نے اس بات کو کھوج لیا کہ ایک چھپا ہوا توانائی کا ذریعہ ولیز کی دائمی حرکی مشین میں موجود تھا۔ 





١٨٧٢ء میں جان ارنسٹ وہریل کیلی (John Ernst Worrel Kelly) اس دور کا سب سے سنسنی خیز اور منفعت بخش دھوکا دینے کا مرتکب ہوا ، اور فریب سے سرمایہ کاروں کے ٥٠ لاکھ ڈالر ہڑپ کر گیا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر میں ایک ایسی رقم سمجھی جاتی تھی جو بادشاہوں اور شہزادوں کے پاس ہی ہوتی تھی۔ اس کی دائمی حرکی مشین کی بنیاد سر ملائے کانٹوں کی گمگ تھی جو "ایتھر "سے جڑے ہوئے تھے۔ کیلی ایک ایسا شخص تھا جس کو سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ، اس نے امیر سرمایہ داروں کو اپنے گھر بلایا جہاں پر اس نے انھیں اپنی ہائیڈرو-نیومیٹک -پلسیٹنگ واکو –انجن کو دکھا کر حیران کر دیا جو اپنے گرد بغیر کسی توانائی کے ذرائع سے چلتی تھی ۔ مشتاق سرمایہ کار اس خود کار چلنے والی مشین میں سرمایہ لگانے کے لئے بیتاب تھے۔ 









جان ارنسٹ وہریل کیلی اپنی دائمی حرکی مشین کے ساتھ 



کچھ عرصے بعد دھوکا کھائے ہوئے غیض و غضب سے بھرے ہوئے سرمایہ داروں نے اس پر الزام لگا دیا اور اس نے کچھ عرصہ جیل میں بھی گزارا۔ بہرحال وہ ایک امیر آدمی کے طور پر ہی مرا۔ اس کے مرنے کے بعد تفتیش کاروں نے اس کی مشین کا چھپا ہوا راز دریافت کر لیا۔ جب اس کے گھر کو گرایا گیا تو مخفی نلکیاں تہ خانے کے فرش اور دیواروں میں پائی گئیں جو خفیہ طریقے سے دبی ہوئی ہوا کو اس کی مشین میں داخل کرتی تھیں۔ ان نلکیوں کو توانائی ایک گھومتے پہلے سے ملتی تھی۔ 






یو ایس بحریہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر بھی اس مشین سے مرعوب تھے۔ ١٨٨١ء میں جان گیمگی (John Gamgee)نے ایک مائع امونیا سے چلنے والی مشین کو بنایا۔ ٹھنڈی امونیا کی تبخیر پھیلتی ہوئی گیسوں کو پیدا کرتی تھی جو پسٹن کو حرکت دینے میں استعمال کی جاتی تھی اور اس طرح سے صرف سمندروں کی حرارت سے وہ مشین کو چلاتی تھی۔ یو ایس بحریہ نے غیر محدود توانائی کو اس طرح سے سمندر سے حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہو کر ایک ایسے آلے کو بنانے کی منظوری دے تھی بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کیا کہ اس کا نظارہ اس وقت کے صدر جیمز گارفیلڈ(James Garfield) کو بھی کروایا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ بخارات کثیف ہو کر دوبارہ مائع نہیں بن رہے تھے ، جس کی وجہ سے چکر پورا نہیں ہو پا رہا تھا۔ 





١٨٨١ء میں جان گیمگی (John Gamgee)کی مائع امونیا سے چلنے والی مشین 







یو ایس پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک آفس نے دائمی حرکی مشین کی تجاویز ات کی بہتات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی پیٹنٹ کو اس وقت تک دینے سے انکار کر دیا جب تک اس کا کام کرتا ہوا نمونہ نہیں دکھایا جاتا۔ بہت ہی کم موقعوں پر ایسا ہوتا کہ جب پیٹنٹ کو جانچنے والا کوئی بظاہر غلط چیز اس نمونے کے ساتھ نہیں پاتا تھا تو اس کے بعد ہی اس نمونے کو پیٹنٹ دے دی جاتی تھی۔ پیٹنٹ آفس کہتا ہے "دائمی حرکی مشین کے علاوہ ،عام طور سے آفس کو کسی نمونے کی ضرورت نہیں ہوتی جو اس آلے کو چلا کر دکھا سکے۔" (اس نقص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے ایمان موجدوں نے سادے سرمایہ کاروں کو خوب بے وقوف بنا کر اپنی ایجادات کے لئے پیسے بٹورے کہ یو ایس پیٹنٹ آفس نے ان کی مشین کو باضابطہ طور پر منظور کر لیا ہے۔) 






سائنسی نقطہ نظر سے دائمی حرکی مشین کی کھوج بہرحال بیکار نہیں گئی، وقت اور توانائی جو اس قسم کی مشینوں کو بنانے میں استعمال ہوئی اس سے طبیعیات دانوں کو تفصیل کے ساتھ حرارتی انجنوں کی جزئیات کو دیکھنے کا موقع ملا۔(بعینہ جیسے کیمیا دانوں کی پارس پتھر کی بے ثمر تلاش نے کیمیا کے کچھ بنیادی قوانین کو دریافت کیا تھا۔ پارس ایک ایسا تصوّراتی پتھر تھا جو سیسے کو سونے میں بدل سکتا تھا)۔ 






مثال کے طور پر ١٧٦٠ء میں جان کاکس (John Cox)نے ایک ایسی گھڑی بنائی جو اصل میں ہمیشہ چل سکتی تھی، جس کو توانائی ماحول میں ہونے والی تبدیلی سے ملتی تھی۔ ہوا کے دباؤ میں تبدیلی ایک بیرومیٹر کو چلاتا تھا جو گھڑی کی سوئیوں کو حرکت دیتا تھا۔ گھڑی نے نا صرف حقیقت میں کام کیا بلکہ وہ اب بھی موجود ہے۔ یہ گھڑی ہمیشہ چل سکتی ہے کیونکہ یہ توانائی کو باہری ذریعہ سے یعنی ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلی سے حاصل کرتی ہے۔ 





کاکس کی دائمی حرکی مشین کی طرح جیسی مشینوں نے سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے میں مدد دی کہ ایسی کوئی بھی مشین ہمیشہ چل سکتی ہے بشرط یہ کہ اس میں باہر سے توانائی کو ڈالا جائے یعنی کہ پوری توانائی محفوظ ہو۔ اس نظرئیے نے حر حرکیات کا پہلا اصول مرتب کیا کہ مادّے اور توانائی کی کل مقدار کو پیدا یا فنا نہیں کیا جا سکتا۔ آخرکار حر حرکیات کے تین اصول وضح کر لئے گئے۔ دوسرا اصول اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ناکارگی (بے ترتیبی )کی کل مقدار ہمیشہ بڑھے گی۔(یوں سمجھ لیں کہ یہ قانون کہتا ہے کہ حرارت اچانک صرف گرم ترین یا سرد ترین جگہوں سے ہی خود سے اچانک نکلتی ہے۔) تیسرا قانون کہتا ہے کہ آپ کبھی بھی مطلق صفر درجہ حرارت تک نہیں پہنچ سکتے۔ 






اگر ہم کائنات کا مقابلہ ایک کھیل سے کریں اور اس کھیل کا مقصد توانائی کو حاصل کرنا ہو تو ان تین اصولوں کو ایسے بیان کیا جا سکتا ہے : 


"آپ کوئی بھی چیز عدم سے حاصل نہیں کر سکتے۔" (پہلا اصول ) 


"آپ اس کو توڑ بھی نہیں سکتے۔" (دوسرا اصول ) 


"آپ کھیل کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔" (تیسرا اصول ) 


(طبیعیات دان انتہائی محتاط ہو کر یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق ہر دور میں مطلق طور پر ہو۔ اس بات سے قطع نظر ابھی تک ان سے انحراف نہیں ملا۔ کوئی بھی شخص جو ان قوانین کو رد کرنے کو کوشش کرے گا اس کو صدیوں پر محیط انتہائی احتیاط سے کیے ہوئے تجربات کو باطل ثابت کرنا ہوگا۔ ہم ان قوانین کے ممکنہ انحراف کو تھوڑی ہی دیر میں آگے بیان کریں گے۔) 






یہ قوانین انیسویں صدی کے سائنسی شاہکار ہیں جن پر فتح و المیے کے نشان ثبت ہیں۔ ایک اہم شخصیت جنہوں نے ان قوانین کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا یعنی کہ جرمن طبیعیات دان لوڈ وگ بولٹز مین (Ludwig Boltzmann) نے اپنے ان بنائے ہوئے قوانین کے تنازع کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ 




لوڈوگ بولٹزمین اور ناگارگی 







بولٹزمین ایک پستہ قد ، پچکی ہوئی پسلیوں کے ساتھ ایک منحنی سا آدمی تھا جس کی جھاڑ جھنکار جیسی داڑھی تھی۔ اس کی ہیبت ناک اور تندخو شخصیت ان زخموں پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی جو اسے اپنے خیالات و افکار کی حفاظت کرنے میں لگے تھے۔ اگرچہ نیوٹنی طبیعیات اچھی طرح سے انیسویں صدی میں اپنی جڑیں پکڑ چکی تھی ، بولٹزمین یہ جانتا تھا کہ ان قوانین کا اطلاق ان متنازعہ جوہروں پر نہیں کر کے دیکھا گیا ہے ، ایک ایسا نظریہ جو کئی چوٹی کے سائنس دانوں کو قابل قبول نہیں تھا۔(ہم اکثر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ایک صدی قبل تک ہی سائنس دانوں کا ایسا جم عفیر موجود تھا جو اس بات پر بضد تھے کہ جوہر صرف ایک چالاک داؤ ہے اور اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جوہر ناقابل تصوّر طور پر ننھے ہوتے ہیں کہ ان کا وجود ممکنہ طور پر ہو ہی نہیں سکتا ۔) 









لوڈوگ بولٹزمین 



نیوٹن نے ثابت کیا کہ بد روحیں یا خواہشات نہیں بلکہ اصل میں تو یہ میکانکی قوّتیں ہوتی ہیں جو اجسام کو حرکت دیتی ہیں ۔ بولٹزمین نے انتہائی نفاست سے گیسوں کے کئی قوانین کو ایک سادے سے مفروضہ کی بنیاد پر حاصل کیا : گیسیں چھوٹی بلیرڈ کی گیندوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور نیوٹن کے قوانین کے تابع ہوتی ہیں۔ بولٹز مین کے لئے ایک گیس کا خانہ ایسا ہے جو دسیوں کھرب ا سٹیل کی ننھی گیندوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے ، جس میں سے ہر گیند ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس نیوٹن کے قانون حرکت کے تحت پلٹتی ہے۔ طبیعیات کے ایک شاہکار میں ، بولٹز مین (اور جیمز کلارک میکسویل نے خود مختار طور پر ) ریاضیاتی طور پر ثابت کیا کہ اس سادے سے مفروضے سے کسی طرح سے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے نئے قوانین اور طبیعیات کی ایک نئی شاخ شماریاتی میکانیات کو تخلیق کیا۔ 






یکایک مادّے کے کئی خصائص پہلے اصول سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ نیوٹن کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ جوہروں میں ڈالی جانے والی توانائی کا ان میں محفوظ رہنا ضروری ہے ، جوہروں کے ہر تصادم میں توانائی کو محفوظ رہنا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دسیوں کھرب جوہروں پر مشتمل پورا خانہ بھی توانائی کو باقی رکھتا ہے۔ بقائے توانائی کا اصول اب صرف تجرباتی طور سے نہیں بلکہ پہلے ہی اصول کی مدد سے ثابت ہو سکتا ہے یعنی کہ نیوٹنی جوہروں کے قانون حرکت سے۔ 






تاہم انیسویں صدی میں جوہروں کے وجود پر زبردست بحث چل رہی تھی اور اس کا اکثر جید سائنس دان بھی مذاق اڑا تے پائے جاتے تھے جیسا کہ فلاسفر ارنسٹ میک (Ernst Mach) ۔بطور حساس اور افسردہ آدمی کے ، بولٹزمین اپنے آپ کو اس تختہ ستم پر بے چین پاتا جس پر اسے اکثر جوہروں کے وجود پر یقین نہ رکھنے والے اپنے بیہودہ حملے کرتے۔ جوہروں کے وجود پر یقین نہ رکھنے والوں کے لئے کسی بھی ایسی چیز کا وجود نہیں ہوتا تھا جس کو ناپا نہ جا سکے اور اس میں جوہر بھی شامل تھے۔ بولٹزمیں کی تذلیل میں اضافے کے لئے ایک ممتاز طبیعیات کے رسالے نے اس کے کئی مقالات کو صرف اس لئے رد کر دیا کیونکہ اس مدیر کی نظر میں جوہر اور سالمات صرف نظری چیزیں تھیں اور حقیقت میں قدرتی طور ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ 






ذاتی حملوں سے تنگ اور بیزار بولٹزمین نے اپنے آپ کو ١٩٠٦ء میں پھانسی پر اس وقت لٹکا لیا جب اس کی بیوی اور بچہ ساحل پر تھے۔ صد افسوس کے بولٹز مین کو اس بات کا پتا نہیں چل سکا کہ ایک سال پہلے ہی ایک نڈر اور نوجوان طبیعیات دان جس کا نام البرٹ آئن سٹائن تھا اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا : اس نے پہلا مقالہ لکھا تھا جس میں اس نے جوہروں کا وجود کو ثابت کردیا تھا۔ 




مکمل ناکارگی ہمیشہ بڑھتی ہے 







بولٹزمین اور دوسرے طبیعیات دانوں کے کام نے دائمی حرکی مشینوں کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں مدد دی ، جس کے نتیجے میں ان کو دو اقسام میں بانٹا گیا۔ پہلی قسم کی دائمی حرکی مشینیں وہ ہوتی ہیں جو حر حرکیات کے پہلے قانون سے انحراف کرتی ہیں ؛ یعنی کہ، وہ اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہیں جو وہ صرف کرتی ہیں۔ اس قسم کی ہر مشین کا تجزیہ کرنے کے بعد طبیعیات دانوں کو آخر میں یہ پتا چلتا کہ ایسی مشینیں خفیہ باہری توانائی کے ذرائع پر انحصار کرتی ہیں ، ایسا یا تو دھوکا دینے کی غرض سے کیا جاتا تھا یا پھر موجد اندازہ نہیں کر پاتا تھا کہ توانائی کا ذریعہ باہر کہیں سے آ رہا ہے۔ 






دوسری قسم کی دائمی حرکی مشینیں کافی لطیف ہوتی ہیں۔ وہ حر حرکیات کے پہلے اصول بقائے توانائی کے تابع ہوتی ہیں، مگر وہ دوسرے قانون سے انحراف کرتی ہیں۔ نظری طور پر دوسری قسم کی دائمی حرکی مشین کسی قسم کی توانائی کو حرارت کی شکل میں ضائع نہیں کرتی لہٰذا وہ سو فیصد کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود دوسرا اصول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایسی مشین بنانا بھی ناممکن ہے کیونکہ حرارت پیدا ہو کر ضرور ضائع ہوگی جس کے نتیجے میں کائنات میں افراتفری یا بے ترتیبی یا ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مشین کتنی بھی کارگر ہو وہ ہمیشہ کچھ توانائی کو حرارت کی صورت میں ضائع کرے گی جس کے نتیجے میں کائنات میں ناکارگی میں اضافہ ہوگا۔ 


ناکارگی کے ہمیشہ بڑھنے کی حقیقت انسانی قلب اور قدرت دونوں کی تاریخ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوسرے قانون کی رو سے ، کسی چیز کو تباہ کرنا اس کے بنانے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس کو بنانے میں ہزار ہا برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس کو چند ہی مہینوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے مثلاً میکسیکو کی عظیم ازٹیک سلطنت جس کو غیض و غضب سے بھرے ہوئے ہسپانوی نے ختم کر دیا ۔ یہ ہسپانوی گھوڑوں اور آتشیں ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئے تھے۔ 





ہر مرتبہ آپ جب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ایک نئی جھری یا سفید بال نظر آئے گا اور آپ اس دوسرے اصول کے اثر کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ حیاتیات دان ہمیں بتاتے ہیں کہ بڑھاپا ایک ایسا عمل ہے جو خلیوں اور جین میں ہونے والی بتدریج غلطیوں کے جمع ہونے کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، اس طرح سے ہمارے خلیوں کی کارکردگی آہستہ آہستہ متاثر ہوتی رہتی ہے۔ بڑھاپا، زنگ لگنا، سڑنا ، زائل ہونا ، حصّوں بخروں میں بٹنا ،اور منہدم ہونا یہ سب دوسرے اصول کی مثالیں ہیں۔ 






دوسرے اصول کی عمیق گہرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے فلکیات دان آرتھر ایڈڈنگٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا ، "ناکارگی کا قانون ہمیشہ بڑھے گا ، میں سمجھتا ہوں کہ قدرت کے قوانین کے درمیاں سب سے اہم جگہ اس کی ہے۔۔۔۔ اگر آپ کا نظریہ حر حرکیات کے دوسرے اصول کے برعکس ہے تو میں آپ کو کسی بھی قسم کی امید نہیں دلا سکتا ، اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ ذلت کے گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے۔" 






آج بھی مہم جو انجنیئر (اور چالاک دھوکے باز )دائمی حرکی مشین کی ایجادات کے اعلانوں سے باز نہیں آتے۔ حال ہی میں وال اسٹریٹ جرنل نے مجھ سے ایک موجد کے کام کے بارے میں تبصرہ کرنے کا کہا جس نے حقیقت میں سرمایہ داروں کو دلفریب جال میں پھنسا کر ان کے دسیوں لاکھ ڈالروں کو اپنی مشین میں لگا کر ڈوبو دیا تھا۔ نہ رکنے والے مضامین اہم مالیاتی اخباروں میں شایع ہوئے ہیں جو ان صحافی حضرات نے لکھے ہیں جن کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جو جذباتی طور پر اس ایجاد کے دنیا کے بدل جانے کے ممکنہ امکانات کو زیر بحث کیے ہوئے ہیں (اور اس عمل کے دوران شاندار منافع بخش کمائی بھی کر لیتے ہیں۔) "جوہر قابل یا خبطی ؟" شہ سرخی میں گرجا جاتا ہے۔ 






سرمایہ دار بے تحاشا پیسا اس آلے میں لگاتے ہیں جو طبیعیات اور کیمیا کے ان بنیادی اصولوں کے برخلاف ہوتا ہے جو اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں۔(جو بات میرے لیے صدمے کی ہوتی ہے وہ یہ نہیں کہ ایک شخص کسی غیر محتاط شخص کے پیسے لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے - بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ایسی کوششیں تو وقت کے آغاز سے ہی لوگوں نے شروع کر دیں تھیں۔ اصل حیرانگی کی بات یہ ہوتی ہے کہ امیر سرمایہ داروں کو بیوقوف بنانا اس موجد کے لئے اس لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ سرمایہ دار بنیادی طبیعیات کو نہیں جانتے۔) میں نے اس جرنل کو تبصرہ دینے کے لئے وہ ہی مثال دہرا دی "جب تک بیوقوف زندہ ہیں تب تک عقل مند مر نہیں سکتا۔" اور پی ٹی بارنم (P.T. Barnum)کا مشہور زمانہ ارشاد "ہر لمحہ نا تجربہ کار لوگ پیدا ہو رہے ہیں۔" شاید اسی لئے فنانشل ٹائمز ، دی اکنامسٹ ، اور دی وال اسٹریٹ جرنل سب کے سب پورے کے پورے مضامین ان موجدوں کی ایجادوں پر چھاپتے ہیں جو اپنی دائمی حرکی مشینوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ 




تین قوانین اور تشاکل 







مفصلہ بالا تمام باتوں نے اور گہرے سوالات کو جنم دیا ہے : حر حرکیات کے قانون کیوں اتنی سختی سے قائم ہیں ؟ یہ ایک ایسا راز ہے جس نے سائنس دانوں کو ان قوانین کے پیش کئے جانے کے وقت سے ہی متحیر کیا ہوا ہے۔ اگر ہم اس سوال کا جواب دے سکیں، تو شاید ہم ان قوانین میں کوئی سقم نکال سکیں جس کے اثرات زمین کو ہلا دینے والے ہوں۔ 






ایک دن میں کالج میں اس وقت گنگ ہو گیا جب میں نے بالآخر بقائے توانائی کا اصلی ماخذ جان لیا۔ طبیعیات کا ایک بنیادی اصول (جس کو ریاضی دان ایمی نویتھر[Emmy Noether] نے ١٩١٨ء میں دریافت کیا تھا ) یہ ہے کہ جب بھی کوئی نظام متشاکل ہوگا تو اس کا نتیجہ بقائے توانائی ہوگا ۔ اگر کائنات کے قوانین وقتوں سے ایک جیسے چلے آ رہے ہیں تو اس کا نتیجہ حیران کن طور پر یہ نکلتا ہے کہ نظام بقائے توانائی کے اصول پر کاربند ہے۔(مزید براں ، اگر طبیعیات کے قوانین بھی ایک جیسے ہیں تو آپ کسی بھی سمت میں حرکت کریں ، تو آپ کا معیار حرکت اس سمت میں محفوظ رہے گا۔ اور اگر قوانین طبیعیات گردش کے وقت ایک جیسے ہی رہیں گے ، تو زاویائی حرکت بھی باقی رہے گی۔) 









ریاضی دان ایمی نویتھر 



یہ میرے لئے ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ میں یہ بات جان گیا کہ جب ہم دور دراز کہکشاؤں سے آتی ہوئی روشنی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس روشنی کا طیف بھی بالکل ویسا ہی پاتے ہیں جیسا کہ زمین پر روشنی کا طیف ہوتا ہے۔ ہرچند کے یہ کہکشائیں ہم سے ارب ہا نوری برس دور کائنات کی آخری سرحدوں پر واقع ہیں۔ روشنی کی وہ بچی ہوئی مقدار جو ارب ہا برسوں پہلے زمین و سورج ہونے کے پیدا ہونے سے بھی پہلے خارج ہوئی تھی ، اس سے ہم بعینہ ہائیڈروجن، ہیلیئم، کاربن ، نیون اور اس طرح دوسرے کے طیف کو پاتے ہیں جو آج ہمیں زمین پر نظر آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ، بنیادی قوانین طبیعیات شاید ارب ہا برس گزرنے کے بعد بھی نہیں تبدیل ہوئے ہیں اور وہ کائنات کی آخری سرحد پر بھی ویسے ہی مستقل ہیں۔ 






کم از کم میں نے یہ سمجھا ، نویتھر کے نظرئیے کا مطلب یہ ہے کہ بقائے توانائی چاہئے ابدی نہ ہو پر ارب ہا سال تک تو قائم رہ سکے گی۔ جتنا ہم اب تک جان سکے ہیں اس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طبیعیات کے قوانین وقت کے ساتھ نہیں بدلے اور بقائے توانائی کی وجہ بھی یہی ہے۔ 






نویتھر کے نظرئیے کے اثرات جدید طبیعت پر نہایت ہی عمیق پڑے ہیں۔ جب بھی طبیعیات دان ایک نیا نظریہ پیش کرتے ہیں چاہئے وہ کائنات کی ابتداء ، کوارک اور ذیلی جوہری ذرّات کے آپس میں تعاملات یا ضد مادّہ کے بارے میں ہو ، ہم شروع ہی اس تشاکل سے کرتے ہیں جو نظام کے تابع ہو۔ درحقیقت متشاکلات ہی وہ بنیادی چیز ہیں جو کسی بھی نئے نظرئیے کو بنانے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ ماضی میں ، تشاکل کسی بھی نظرئیے کی ضمنی پیداوار سمجھی جاتی تھیں -ایک اچھی مگر نظرئیے کا بیکار حصّہ ، خوبصورت مگر غیر ضروری۔ آج ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ تشاکل کسی بھی نظرئیے کو بیان کرنے کا انتہائی لازمی حصّہ ہیں۔ کسی بھی نئے نظرئیے کو بنانے کے لئے ہم طبیعیات دان شروع ہی تشاکل سے کرتے ہیں اور پھر اس کے گرد ایک نظرئیے بناتے ہیں۔ 






(صد افسوس کہ ایمی نویتھر کو بھی اپنے سے پہلے گزرنے والے بولٹزمین ہی کی طرح اپنی پہچان بنانے کے لئے لڑنا پڑا۔ ایک خاتون ریاضی دان ہونے کے ناتے اس کو صرف اپنی جنس کی وجہ سے کسی بھی ممتاز ادارے میں ایک بہتر مقام دینے سے انکار کر دیا گیا۔ نویتھر کا استاد ، ایک عظیم ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hibert)، نویتھر کو تدریسی ملازمت دلوانے پر ناکامی سے اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ وہ چیخ پڑا ،"ہم آخر کیا چیز ہیں ، کوئی جامعہ یا پھر کوئی غسلی سماج ؟") 






مفصلہ بالا گفتگو انتہائی پریشان کن سوال اٹھاتی ہے۔ اگر بقائے توانائی اس لئے ہے کہ قوانین طبیعیات وقت کے ساتھ نہیں بدلے تو کیا اس تشاکل کو غیر معمولی صورتحال میں کبھی توڑا جا سکتا ہے۔ کائناتی پیمانے پر اب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ بقائے توانائی کے اصول کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے ۔ اگر ہمارے قوانین کی تشاکل کسی اجنبی اور غیر متوقع جگہ پر ٹوٹ جائے تو کیا ہوگا ۔ ایسا ہونے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین وقت یا فاصلے کے ساتھ تبدیل ہوں۔(ایسی موف کے ناول "دی گاڈ دیم سیلفز " میں یہ تشاکل اس لئے ٹوٹا تھا کہ خلاء میں ایک سوراخ ہو گیا تھا جس نے ہمیں ایک دوسری متوازی کائنات سے جوڑ دیا تھا۔ طبیعیات کے قوانین خلاء میں سوراخ کے آس پاس تبدیل ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں حر حرکیات کے قوانین کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ لہٰذا بقائے توانائی کے اصول کو اسی صورت میں توڑا جا سکتا ہے جب خلاء میں کوئی سوراخ ہو جیسا کہ ثقف کرم(وارم ہول)۔ 






ایک اور سقم جس پر آج کل گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں وہ یہ ہے کہ کیا توانائی عدم سے پیدا ہو سکتی ہے۔ 




خلاء سے توانائی ؟







ایک سنسی خیز سوال :کیا یہ ممکن ہے کہ توانائی کو عدم سے حاصل کیا جا سکے ؟ حال میں ہی طبیعیات دانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خلاء کا "عدم " بالکل خالی نہیں ہے اس میں بھی مختلف عمل جاری ہیں۔ 






اس خیال کے حامی بیسویں صدی کے ایک کج رو اور خدا داد صلاحیتوں کے حامل نیکولا ٹیسلا(Nikola Tesla) ہیں جو تھامس ایڈیسن کے حریف تھے۔ وہ بھی نقطہ صفر توانائی کے حامیوں میں سے تھے یعنی کہ خالی خلاء ناقابل بیان توانائی رکھتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو خالی جگہ ہمارے لئے وہ آخری جگہ ہوگی جو ہمیں ہوا سے لامحدود توانائی نکال کر دے گی۔ خالی خلاء جو کسی بھی مادّے کے بغیر خالی سمجھی جاتی ہے وہ توانائی کو محفوظ رکھنے کی سب سے بہترین جگہ ہوگی۔ 





نیکولا ٹیسلا 







ٹیسلا ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا جو اب سربیا کا حصّہ ہے اور ریاست متحدہ میں پنیلیس میں ١٨٨٤ء میں آیا۔ جلد ہی وہ تھامس ایڈیسن کا معاون بن گیا مگر اس کی ذہانت نے اس کو ایڈیسن کا حریف بنا دیا ۔ مورخوں کے مطابق اس شہرہ آفاق مقابلے میں ٹیسلا کو داغدار کر دیا گیا تھا جس کو وہ "برقی رو کی جنگ " کہتے ہیں۔ ایڈیسن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وہ دنیا کو اپنے "راست رو موٹروں " سے برقا دے گا جبکہ ٹیسلا "متبادل رو " کو پہچانے والا تھا اور اس نے کامیابی کے ساتھ اس بات کو ثابت بھی کیا کہ اس کا طریقہ ایڈیسن کے طریقے سے کہیں زیادہ بہتر تھا اور اول الذکر طریقے کے مقابلے میں طویل فاصلے پر کہیں کم رو کو ضائع کرتا تھا۔ آج پورا سیارہ ٹیسلا کے پیٹنٹ سے برقا رہا ہے ایڈیسن کے ایجاد کیے ہوئے طریقے سے نہیں۔ 






ٹیسلا کی ایجادات اور پیٹنٹ سات سو سے زائد ہیں اور اس میں سے کچھ تو ایسی ہیں کہ وہ جدید برقیات کی دنیا میں اہم سنگ میل ثابت ہوئیں۔ مورخوں نے با وثوق طور پر اس بات کے ثبوت حاصل کیے ہیں کہ ٹیسلا نےنہ صرف گگلیلمو مارکونی ([Guglielmo Marconi] جس کو ریڈیو کا موجد مانا جاتا ہے )سے کہیں پہلے ریڈیو ایجاد کر لیا تھا بلکہ وہ ایکس ریز پر اس کے با ضابطہ طور پرویلہلم روینٹ جین (Wilhelm Roentgen)کے دریافت کرنے سے پہلے اس پر کام کر رہا تھا۔(مارکونی اور روینٹ جین دونوں نے بعد میں شاید ان دریافتوں پر نوبل انعام حاصل کیا جو ٹیسلا ان سے پہلے دریافت کر چکا تھا۔) 






ٹیسلا اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ وہ لامحدود توانائی کو خلاء میں سے نکال سکتا ہے ، بدقسمتی سے یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت وہ اپنی نوٹ بک میں درج نہیں کر سکا۔ شروع میں "نقطہ صفر توانائی" حرحرکیات کے پہلے قانون سے متصادم ہوتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ نقطہ صفر توانائی نیوٹنی میکانیات سے میل نہیں کھاتی نظر آتی ، نقطہ صفر توانائی کا تصوّر حال ہی میں دوبارہ ایک نئی سمت سے نمودار ہوا ہے۔ 






جب سائنس دانوں نے حال ہی میں خلاء میں بھیجے جانے والے زمین کے گرد چکر لگانے والے مصنوعی سیارچوں جیسا کہ ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تو وہ اس حیرت انگیز نتیجے پر پہنچے کہ ٧٣ فیصد کائنات تاریک مادّے سے بنی ہوئی ہے ، وہ توانائی جو خالص خلاء کی توانائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام کائنات میں سب سے عظیم توانائی کا ذخیرہ اس خالی جگہ میں ہے جس نے کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ہوا ہے۔(یہ تاریک توانائی سی قدر جسیم ہے کہ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے جس کے نتیجے میں کائنات ٹوٹ کر بکھر کر ایک عظیم انجماد میں ختم ہو جائے گی۔) 






تاریک توانائی کائنات میں ہر جگہ موجود ہے یہاں تک کہ یہ اس کمرے میں جس میں آپ بیٹھے ہیں بلکہ آپ کے جسم میں بھی یہ موجود ہے۔ تاریک توانائی کی مقدار خلاء میں حقیقی طور پر فلکیاتی ہے جس نے اس تمام توانائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کائنات میں موجود ان تمام کہکشاؤں اور ستاروں میں موجود ہے۔ ہم زمین پر بھی تاریک توانائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کافی کم مقدار میں ہے۔ یہ اس قدر کم مقدار میں ہے کہ اس کو دائمی حرکی مشین میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیسلا تاریک توانائی کے بارے میں تو درست تھا مگر زمین پر موجود تاریک توانائی کے بارے میں اس کا اندازہ غلط تھا۔ 






کیا واقعی وہ غلط تھا؟ 






جدید طبیعیات کی ایک الجھا دینے والی خلیج یہ ہے کہ کوئی بھی تاریک توانائی کی مقدار کا حساب نہیں لگا سکتا جس کو ہم اپنے مصنوعی سیارچوں سے ناپ سکتے ہیں۔ اگر ہم جوہری طبیعیات کے تازہ نظرئیے کا استعمال کرتے ہوئے کائنات میں تاریک مادّے کی مقدار کا اندازہ لگائیں ، تو ہم ایک ایسے عدد پر پہنچ سکتے ہیں جو ١٠١٢٠ سے زیادہ غلط ہو سکتی ہے! یعنی کہ ایک کے بعد ١٢٠ صفر ! نظرئیے اور تجربے کا یہ فرق دنیائے طبیعیات میں اب تک کا حاصل ہونے والے تفاوتوں میں سب سے بڑا فرق ہے۔ 






نقطہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ "عدم کی توانائی "کو کیسے ناپا جائے۔ طبیعیات میں یہ ایک سب سے اہم سوال ہے (کیونکہ بالآخر اسے ہی کائنات کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے )، مگر دور حاضر میں ہم اسے ناپنے سے مجبور ہیں۔ کوئی بھی نظریہ تاریک توانائی کو بیان نہیں کرتا ، اگرچہ تجرباتی ثبوت اس کی موجودگی کے احساس دلاتے ہوئے ہمیں گھور رہے ہیں۔ 






لہٰذا خالی جگہ میں بھی توانائی موجود ہوتی ہے جیسا کہ ٹیسلا کو شک تھا۔ مگر شاید یہ توانائی اس قدر کم ہوگی کہ اس کو قابل استعمال توانائی کے طور پر کام میں نہیں لایا جا سکے گا ۔ہرچند کہ کہکشاؤں کے درمیان تاریک توانائی کی بہت وسیع مقدار موجود ہے ، تاہم زمین پر پائی جانے والی مقدار بہت ہی کم ہے۔ مگر الجھا دینے والی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ نہیں معلوم کہ اس توانائی کو کیسے ناپا جائے یا یہ کہاں سے آئی ہے۔ 






میرا اپنا نقطہ نظر یہ ہے کہ بقائے توانائی گہری کائناتی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس قانون سے ذرا سا بھی انحراف ملنے کا مطلب ہے کہ کائنات کے ارتقاء کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں بہت ہی عمیق تبدیلی ہوگی۔ اور تاریک توانائی کے اسرار نے طبیعیات دانوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس سوال سے دو بدو مقابلہ کریں۔ 





کیونکہ کسی بھی دائمی حرکی مشین کو بنانے کے لئے ہمیں اپنے بنیادی قوانین طبیعیات کو کائناتی پیمانے پر دوبارہ سے زیر غور لانا ہوگا ، لہٰذا میں دائمی حرکی مشین کو جماعت III میں زمرہ بند کرتا ہوں ؛ یعنی کہ یا تو وہ واقعی حقیقت میں ناممکن ہیں یا ہمیں اپنی سمجھ کو بنیادی طبیعیات کے کائناتی پیمانے پر جاننے کے لئے بدلنا پڑے گا تا کہ کسی ایسی ممکنہ مشین کو بنایا جا سکے۔ تاریک توانائی جدید سائنس میں ایک غیر مکمل سبق بنا رہے گا۔


$(".timeline-item").hover(function() { $(".timeline-item").removeClass("active"); $(this).toggleClass("active"); $(this).prev(".timeline-item").toggleClass("close"); $(this).next(".timeline-item").toggleClass("close"); });