div { font-family: Helvetica, Arial, sans-serif; box-sizing: border-box; } .timeline { width: 400px; } .timeline .timeline-item { width: 100%; } .timeline .timeline-item .info, .timeline .timeline-item .year { color: #eee; display: block; float: left; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item.close .info, .timeline .timeline-item.close .year { color: #ccc; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item .year { font-size: 24px; font-weight: bold; width: 22%; } .timeline .timeline-item .info { width: 100%; width: 78%; margin-left: -2px; padding: 0 0 40px 35px; border-left: 4px solid #aaa; font-size: 14px; line-height: 20px; } .timeline .timeline-item .marker { background-color: #fff; border: 4px solid #aaa; height: 20px; width: 20px; border-radius: 100px; display: block; float: right; margin-right: -14px; z-index: 2000; position: relative; } .timeline .timeline-item.active .info, .timeline .timeline-item:hover .info { color: #444; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; } .timeline .timeline-item.active .year, .timeline .timeline-item:hover .year { color: #9DB668; } .timeline .timeline-item .marker .dot { background-color: white; -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; display: block; border: 4px solid white; height: 12px; width: 12px; border-radius: 100px; float: right; z-index: 2000; position: relative; } .timeline .timeline-item.active .marker .dot, .timeline .timeline-item:hover .marker .dot { -webkit-transition: all 1s ease; -moz-transition: all 1s ease; transition: all 1s ease; background-color: #9DB668; box-shadow: inset 1px 1px 2px rgba(0, 0, 0, 0.2); } $(".timeline-item").hover(function() { $(".timeline-item").removeClass("active"); $(this).toggleClass("active"); $(this).prev(".timeline-item").toggleClass("close"); $(this).next(".timeline-item").toggleClass("close"); }); Testing

Friday, August 30, 2019

hyper giants


<![if !vml]><![endif]>

Sunday, December 11, 2016

ملکی وے کہکشاں کی وضاحت
<![if !mso]>
<![endif]>
ملکی وے کہکشاں کے بارے میں 5 اہم حقائق

<![if !mso]>
<![endif]>
<![if !mso]>
<![endif]>
1۔ گلیلیو گلیلی
1610ء کے قریب، مشہور اطالوی بحرالعلوم گلیلیو وہ پہلا شخص تھا جس نے ملکی وے کو دوربین کے ذریعہ دیکھا، اور دنیا کو بتایا کہ یہ بے شمار انفرادی ستاروں سے مل کر بنی ہے۔
2۔ ولیم ہرشل
ہرشل نے 1780ء کے عشرے میں 600 مختلف جگہوں پر اپنی دوربین کے میدان میں آنے والے ستاروں کی تعداد کو گن کر ملکی وے کا پہلا نقشہ مرتب کیا - ایک ایسا طریقہ جس کو اس نے 'ستاروں کی گنتی' کا نام دیا۔
3۔ جیکوبس کپٹین
1904ء میں ولندیزی ماہر فلکیات کپٹین نے دریافت کیا کہ کہکشاں گھوم رہی ہے۔ اس نے بہتر فلکیاتی معلومات کے ساتھ ملکی وے کا نقشہ مرتب کرنے میں زبردست سعی کی۔
4۔ جان اورٹ
پچاس کی دہائی میں، جان اورٹ نے پہلی بڑی ریڈیائی دوربین بنائی اور اس کا استعمال بین النجمی ہائیڈروجن کی تقسیم کا نقشہ بنانے میں کر کے ملکی وے کی چکر دار ساخت کی تصدیق کی۔
5۔ ہپارکوس
1989ء سے 1993ء تک، اس یورپی خلائی ایجنسی کے سیارچے نے 20 لاکھ ستاروں کے اعداد و شمار کو جمع کر کے ہماری کہکشانی پڑوس کا پہلا درست نقشہ مرتب کیا۔


<![if !mso]>
<![endif]>
اس کہکشاں کے بارے میں جانئے  جس میں ہم رہتے ہیں
اس مضمون میں ہم آپ کو نہ صرف اپنے نظام شمسی بلکہ دیگر ارب ہا ستاروں اور سیاروں کے وطن ملکی وے (آکاش گنگا یا دودھیا راستہ) کے ماخذ اور اس میں اپنے مقام و محل وقوع کے بارے میں بتائیں گے۔
بادلوں سے پاک رات کے تاریک صاف و شفاف آسمان کو دیکھتے وقت جو بھی ستارہ ہمیں نظر آتا ہے دراصل میں وہ ہماری اپنی کہکشاں کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ ستارے وسیع کائنات میں خالی آنکھ سے مشاہدے کرنے والے کے لئے صرف ننھے روشنی کے چند مدھم نقطے ہی ہوتے ہیں۔
گنجان، روشن ستاروں کے جھرمٹ کے ساتھ مدھم روشنی کا دریا جس کو قدیمی ستارہ شناسوں نے آسمان میں بکھرے دودھ - دودھیا راستے سے تشبیہ دی تھی اور یوں اس سبب سے ہماری پوری کہکشاں کا یہی نام پڑ گیا۔ ستاروں کی تقسیم اس کی ساخت کے بارے میں ہمیں اچھا عندیہ دیتی ہے- دو چشمی دوربین سے دیکھنے میں، ملکی وے خود سے بے شمار انفرادی ستارے رکھنے والے بادلوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
بہرحال اپنی کہکشاں سے دور کی طرف دیکھیں تو ہمیں ستارے ایک دوسرے سے نسبتاً کافی دور اور فقط چند ہی نظر آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا نظام شمسی کم و بیش ستاروں کی چپٹی قرص (قرص ایک طشتری کو کہتے ہیں جیسے آپ نے اڑن طشتری کا لفظ تو آپ نے سنا ہی ہو گا) میں ہی پیوست ہے - جب ہم سطح مستوی پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہر سمت میں طویل فاصلے تک کافی زیادہ ستارے کھنچے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ جب ہم 'اوپر' یا 'نیچے ' دیکھتے ہیں، تب ہمیں صرف اپنی قریبی کہکشانی پڑوس کے اجسام نظر آتے ہیں۔
اس بات کو جاننا ہی ہماری کہکشاں کے نقشے کو بنانے کا سب سے بنیادی اور پہلا قدم ہے۔ 1770ء اور 1780ء کی دہائی میں، جرمن نژاد برطانوی ماہر فلکیات ولیم ہرشل (سیارہ یورینس کا دریافت کرنے والے ) نے آسمان کے مختلف حصوں پر 'ستاروں کے شمار' کی تفصیلات کو مرتب کیا۔ اس غلط مفروضے کی بنیاد پر کہ تمام ستاروں کی ایک جیسی ہی تابانی ہوتی ہے، اس نے بالآخر ایک ایسا نقشہ بنایا جس میں ملکی وے کو ایک بغیر ساخت کے سحابیہ یا بادل کا ظاہر کیا گیا تھا جس میں ہمارا نظام شمسی کا محل وقوع مرکز میں تھا۔
بلاشبہ آج کا ملکی وے کہکشاں کے نقشے کا ہمارا نمونہ پہلے کی نسبت کافی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہرشل بمشکل ہی اس بات کا تصور کر سکتا تھا کہ ملکی وے کے نقشے کو بالآخر ریڈیائی امواج کا استعمال کر کے ٹھیک سے مرتب کر لیا جائے گا، یہ ریڈیائی امواج اس کے مرنے کے ایک صدی بعد تک دریافت نہیں ہوئی تھی۔ پچاس کی دہائی کے بعد سے، ان لہروں نے فلکیات دانوں کو ستاروں کے جھرمٹوں سے دور پرے دیکھنے اور ہائیڈروجن کے دیو قامت بادلوں کی تقسیم کی نشاندہی کرنے کے قابل بنایا - 'بین النجم کے درمیانی حصوں' کا ایک اہم جز جس نے ملکی وے کے ڈھانچے کو تشکیل دیا ہے۔

ملکی وے نے سائنس دانوں اور شوقیہ فلکیات دانوں  دونوں کو ہی صدیوں سے ایک جیسی حیرت میں ڈالا ہوا ہے
سائنس کی سب سے بڑی پیش رفت ملکی وے کے علاوہ دوسری کہکشاؤں کی دریافت بیسویں صدی میں ہوئی۔ ماہرین فلکیات اب ملکی وے کا موازنہ دوسری کہکشاؤں سے کر سکتے ہیں اور یہ بات جلد ہی واضح ہو گئی کہ اس کی خصوصیات ان نام نہاد جیسا کہ قریبی اینڈرومیڈا کہکشاں  کے 'مرغولہ نما سحابیوں ' کی طرح ہیں۔
نتیجتاً، اب ہم جانتے ہیں کہ ملکی وے ایک وسیع پھول پھرکی کی طرح ہے۔ یہ عمر رسیدہ سرخ اور پیلے ستاروں کے دیو قامت مرکزی گومڑ کے گرد آہستگی کے ساتھ چکر لگا رہی ہے۔ مرغولے کا نظر آنے والا حصہ 100,000 نوری برس سے زیادہ فاصلے پر پھیلا ہوا ہے، جبکہ نا نظر آنے والا مادے اس سے بھی کہیں زیادہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمارا اپنا نظام شمسی مرکز میں نہیں ہے، جیسا کہ ہرشل نے سمجھا تھا، بلکہ یہ قرص کے مرکز سے نصف کی دوری  یعنی ملکی وے کے پرہنگم قلب سے 26,000 برس دوری پر واقع ہیں۔ اور مزید یہ کہ ہمارا سورج دوسرے 2 کھرب تا 4 کھرب ستاروں میں سے ایک بہت ہی عام سا اوسط اور معمولی ستارہ ہے۔
دوسری کہکشاؤں سے موازنہ بتاتا ہے کہ ملکی کہکشاں ایک 'سلاخ نما' مرغولہ کہکشاں ہے - اس کے بازو ستاروں کی کثیف سلاخ سے نکل کر اختتام پذیر ہوتے ہیں اور یہ مرکزی گومڑ سے ہر طرف نکل کر پھیلے ہوئے ہیں۔ گومڑ کی ساخت لگ بھگ کروی ہے اور یہ 16,000نوری برس پر پھیلا ہوا ہے، جبکہ سلاخ کم از کم 20,000 نوری برس طویل ہے۔

مرکزی گومڑ کے ارد گرد ستاروں کی ایک چپٹی قرص 1,000 نوری برس گہری ہے، جہاں سے چکر دار بازو نکل کر پھیل رہے ہیں۔ دور دراز کہکشاؤں میں صرف بازو ہی قرص کے نظر آنے والے حصے ہوتے ہیں، تاہم مزید غالب ستارے اور بین النجم مادہ بھی مدھم پس منظر میں موجود ہو گا، کیونکہ انہوں نے ہی بالآخر مرغولے کو اس کی صورت عطا کرنی ہوتی ہے۔
اپنی ظاہری صورت کے باوجود مرغولہ نما بازو ٹھوس ڈھانچہ نہیں ہوتا - اگر ایسا ہوتا تو وہ تیزی سے قلب کے گرد لپٹ جاتے، اور ہم بے شمار کہکشاؤں کے مشاہدے کو  کرنے کے بعد یہ بات جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔
اس کے بجائے، ایسا لگتا ہے کہ مرغولہ نما بازو طویل عرصے تک قائم تو رہتے ہیں تاہم یہ متواتر بنتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہکشاں کے مرکز میں ایک طرح سے نجمی 'ٹریفک جام' کی صورت ہوتی ہے  جہاں مادہ قرص میں ایک ساتھ ڈھیر ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف پرانی 'ستاروں کی قرص' کی روشنی مرتکز ہوتی ہے جو مرغولہ نما علاقے میں آتے جاتے رہتے ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ یہ نئی ستاروں کی پیدائش کی لہر کو بھی شروع کرتی ہے جس سے مستقبل کے روشن تاہم کم عمر والے بھاری بھرکم ستارے بنتے ہیں۔ یہ گرم نیلے -سفید ستارے، آپس میں جھرمٹ بناتے ہوئے جب ستاروں کو پیدا کرنے والے سحابیہ سے نمودار ہوتے ہیں، تو کئی ہزار سورجوں کی تابانی کے ساتھ چمکتے ہیں، اور اس سے پہلے کہ ان کے کہکشاں کے گرد طویل مدار ان کو مرغولہ نما علاقے سے باہر کریں یہ صرف چند کروڑ برس تک ہی زندہ رہ کر موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ صرف کم ضخیم اور زیادہ غیر متلاطم ستارے (جیسا کہ ہمارا سورج ہے ) کافی طویل عرصے کے لئے جی سکتے اور مرغولہ نما بازو کے درمیان سے نمو دار ہو سکتے ہیں۔ تاہم 'ٹریفک کے رش' کی اصل وجہ کیا ہے۔ ملکی وے کی خلاء میں رفتار اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی ہلکی سی بیضوی (کھینچی ہوئی) قرص کے ستارے اور بین النجم مادے کا مدار کسی مخصوص سمت میں دوسری قریبی کہکشاؤں کی ثقل کی وجہ سے کھینچا جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مداری جسم مدار کے بیرونی حصے پر آہستہ حرکت کرتا ہے، اس طرح کے کھچاؤ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کھچاؤ بالآخر اس جگہ ہر چیز کو آہستہ کر دے گا، جس کی وجہ سے چکر دار ٹریفک کا رش پیدا ہوتا ہے۔
اور کئی قریبی کہکشائیں سخت محنت کر کے اپنا اثر قائم کرنے کے لئے موجود ہوتی ہیں - ہماری ملکی وے ایک درجن سے زائد چھوٹی سیارچہ نما کہکشاؤں کے ثقلی کھچاؤ میں گھری ہوئی ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور میجیلانی بادل ہیں، گیس اور ستاروں کے دو بے قاعدے صورت کے بادل جو زمین سے 160,000 اور 200,000 نوری برس دور واقع ہیں اور جنوبی آسمان میں ملکی وے کے الگ ٹکڑے نظر آتے ہیں۔ اتنے ہی پر اثر اس سے کہیں چھوٹے بونی بیضوی برج قوس اور بونی کلب اکبر کی کہکشائیں ہیں، جو دونوں فی الحال ایک دوسرے سے متصادم ہو رہی ہیں، اور بالآخر یہ دونوں ہمارے اپنی کہکشاں کے  چکر دار بازو میں شامل ہو جائیں گی۔
ملکی وے میں ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے۔ مرکزی گومڑ میں موجود ستارے جھکے ہوئے اور کھینچے ہوئے مدار میں قلب میں عظیم مرتکز کمیت کے گرد سفر کرتے ہیں، جبکہ اس سے دور قرص میں ستارے چپٹے اور زیادہ دائروی مدار میں محو سفر ہیں۔ اس فرق کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ قرص ستاروں، گیس اور دھول کا آمیزہ ہے ؛ ستارے اپنی مرضی سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ متصادم  ہوئے بغیر زیادہ بے ترتیب مدار میں چکر لگا سکتے ہیں، تاہم گیس اور دھول ہر وقت متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے ان پر ایک جیسی یکساں حرکت میں رہنے کے لئے زور پڑتا ہے، اور کیونکہ قرص کے ستارے گیس و دھول کے بادلوں سے ہی پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں یہی حرکت موجود ہوتی ہے۔
اگرچہ مدار میں چکر لگاتے ستاروں کی رفتار مرکز سے فاصلے کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے، تاہم ایسا ہماری توقعات یا حسابات کے مطابق نہیں ہوتا، جو ایک اور معمہ ہے۔ قلب سے زیادہ فاصلے پر موجود رہتے ہوئے بجائے آہستہ چکر لگانے کے قرص کے زیادہ تر ستارے کم و بیش ایک ہی رفتار سے چکر لگاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کہکشاں میں مادے کی تقسیم اس کے نظر آنے والے مادے کی تقسیم کے مطابق نہیں ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کافی بڑی تعداد میں غیر مرئی مادہ ملکی وے کے مرئی مادے کی سرحد سے دور موجود ہو۔
فلکیات دان اس پراسرار مادے کو 'تاریک مادہ' کہتے ہیں، اور اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ یہ ہماری کہکشاں میں بصری مادے سے ایک کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تک موجود ہے۔
کہکشانی مرکز کے مخالف سمت میں دیکھنے سے، نجمی مدار ہماری کہکشاں کے مرکز کی چھان پھٹک کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ یہاں پر، ستارے متواتر تیز سے تیز رفتار حرکت کرتے ہوئے لگتے ہیں، جس سے ہماری کہکشاں کے قلب میں زبردست مادے کے مرتکز ہونے کا پتا لگتا ہے، اتفاق سے یہ ریڈیائی لہروں اور ایکس ریز کے منبع جو قوس الف* کے نام سے جانا جاتا ہے، کے ساتھ ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ یہ اب ایک بہت عظیم بلیک ہول (ثقب سیاہ یا ثقب کرم) سے جانا جاتا ہے جس کی کمیت 40 لاکھ سورجوں  کے برابر ہے اور یہ ہمارے نظام شمسی سے بھی کہیں زیادہ چھوٹے حصے میں مرتکز ہے - ہماری دلچسپ کہکشاں کے قلب کا سب سے چھپا ہوا راز۔
جب کہکشائیں متصادم ہوتی ہیں
میسی 31 کے نام سے بھی جانے جانی والے، اینڈرومیڈا کہکشاں (عربی میں مراة المسلسلہ) ہماری سب سے قریبی بڑی کہکشانی پڑوسی ہے - ایک مرغولہ نما کہکشاں جو ہماری کہکشاں سے بھی بڑی 25 لاکھ نوری برس کی دوری پر ہے۔ اگرچہ اینڈرومیڈا کا قطر ہماری اپنی کہکشاں سے کافی بڑا تقریباً 140,000 نوری برس کا ہے، اور یہ ہم سے دگنے سے بھی زیادہ ستارے یعنی تقریباً 10 کھرب رکھتی ہے، ان تمام باتوں کے باوجود اس کا وزن ملکی وے سے کم ہے، یوں ایسا لگتا ہے کہ ملکی وے میں زیادہ غیر مرئی مادہ موجود ہے۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا مقامی گروہ، ایک چھوٹا کہکشانی جھرمٹ جس میں کئی درجن چھوٹی کہکشائیں موجود ہیں - کے سب سے بڑے اراکین ہیں۔ یہ دونوں بھاری بھرکم کہکشائیں ایک دوسرے کی ثقل کی وجہ سے کھنچی جا رہی ہیں، اور ایک دوسرے کی جانب 300 کلومیٹر فی سیکنڈ (186 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے چلی آ رہی ہیں۔ اس وجہ سے یہ آج سے تقریباً 4 ارب برسوں میں متصادم ہو جائیں گی - شاید بالآخر ضم ہو کر ایک واحد فوق دیو قامت بیضوی کہکشاں بنا لیں گی۔
گایا: ملکی وے کی نقشہ سازی
دسمبر 2013ء میں، یورپی خلائی ایجنسی نے ایک سیارچہ چھوڑا، جس کا مقصد ملکی وے کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر میں انقلاب برپا کرنا تھا۔ گایا خلائی دوربین ہے جس کو ایک ارب سے زائد ستاروں کا سروے کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، یہ  ملکی وے کا اب تک کا سب سے مفصل نقشہ بنائے گی۔ یہ اپنے کام کرنے والے مدار میں زمین سے کچھ 15 کروڑ کلومیٹر (9 کروڑ 32 لاکھ میل) دور جنوری 2014 ء میں پہنچ چکی ہے۔
گایا جیومیٹری کی وہ ترکیب استعمال کرتی ہے جو اختلاف زاویہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آسمان میں ستارے کا ظاہری مقام اس وقت تھوڑا سا تبدیل ہو گا جب زمین کے مدار کے مخالف جا کر اسے دیکھا جائے گا (یہ وہی اثر ہے جو اس وقت نظر آتا ہے جب آپ اپنی انگلی کو ہاتھ پھیلا کر سامنے کی دیوار یا کسی اور جسم کو دیکھنے کی کوشش پہلے ایک آنکھ بند کر کے کرتے ہیں اور پھر دوسری آنکھ۔) اس 'اختلاف زاویہ' کی پیمائش کر کے اس سادہ جیومیٹری کی مدد سے ستارے کے فاصلے کا حساب لگانا ممکن ہے۔ قریب کے علاوہ تمام ستاروں کے لئے، جو زاویہ ہوتا ہے وہ مطلق ننھا ہوتا ہے، تاہم تب بھی گایا 30,000 نوری برس تک کے اجسام کے مقام کو 20 فیصد درستگی کے ساتھ ناپ سکتی ہے۔
ملکی وے کے مرکزی گومڑ کی کیا شکل اس صورت ہے؟
الف۔ بیضوی
 ب۔ بل دار صورت
ج۔ مونگ پھلی جیسی صورت
جواب:
کہکشانی گومڑ کے کئے گئے حالیہ زیریں سرخ سروے کے مطابق، ستاروں کی غیر ہموار تقسیم کچھ زاویوں سے اس کو مونگ پھلی کی صورت کا مشابہ بناتی ہے۔ ہمیں قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں کہ ستارے کیوں اس غیر معمولی طریقے میں ملے ہوئے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
ملکی وے کی قرص تھوڑی سے قریبی میجیلانی بادلوں کے کھچاؤ کی وجہ سے لپٹی ہوئی ہے۔
کہکشاؤں کی درجہ بندی
ایڈون ہبل ایک امریکی فلکیات دان تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ ملکی وے کے باہر موجود کہکشاؤں کے وجود کو ثابت کیا تھا، انہوں نے جلد ہی کئی مختلف اقسام کی کہکشاؤں کی شناخت کی اور ان کی درجہ بندی کرنے والے نظام کو ترتیب دیا جو اپنے وقت کے کسوٹی پر اچھی طرح اترتا تھا۔ مرغولہ دو وسیع جماعتوں میں تقسیم ہوتا ہے - عام اور سلاخ نما - ان میں سے ہر ایک بلحاظ گنجان اور مرغولہ نما بازؤں کی تعریف کی بنیاد پر مزید تقسیم ہوتا ہے۔ بیضوی یا گیند صورت کہکشائیں اپنی صورت کی وجہ سے مکمل کروی سے لے کر بہت زیادہ بیضوی تک درجہ بند کی جاتی ہیں۔ ہبل نے کہکشاؤں کو اس چیز میں رکھا جو 'سر دوشاخہ' خاکے کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے بارے میں وہ سمجھتا تھا کہ یہ کہکشاؤں کے ارتقاء کا نمونہ بناتا ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ کہکشاؤں کی زندگی کا حقیقی چکر اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا ہبل سمجھتا تھا۔


"ہماری ملکی وے لگ بھگ ایک درجن سے زیادہ چھوٹی سیارچہ  کہکشاؤں کے 'اپنی ثقلی کھچاؤ' کے زیر اثر ہے "
کیا آپ جانتے ہیں؟
زمین سے آسمان پر دیکھنے میں ملکی وے سب سے زیادہ روشن برج قوس کی جانب ہے۔
انتہائی یادگار
چمکدار روشن 50 لاکھ سورجوں کے برابر
ملکی وے میں روشن ترین ستارہ
ہماری کہکشاں میں سب سے زیادہ تاباں ستارہ زمین سے 7,500 نوری برس دور ہے۔ ایٹا کرائنی نامی اس ستارے کی کمیت  100 سورجوں کی کمیت کے برابر ہے، تاہم اس کی تابانی سورج سے 50 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ کسی بھی وقت نوتارے سپر نووا  کی صورت میں پھٹ سکتا ہے۔
"مرکزی گومڑ کے ارد گرد ستاروں کی ایک چپٹی قرص 1,000 نوری برس گہری ہے"
کیا آپ جانتے ہیں؟
لفظ 'کہکشاں' دودھیہ راستہ: گیلیکسیاس کیکلوس قدیمی یونانی نام سے پڑا ہے
ملکی وے کہکشاں کے بارے میں 5 اہم حقائق
کہکشانی دماغ

1
ملکی وے اعداد و شمار میں  
2 تا 4 کھرب
کہکشاں میں ستاروں کی تعداد
1 کھرب
زمین جیسے سیاروں کی تخمینی تعداد
120,000
قطر نوری برس میں
13 ارب 60 کروڑ
ملکی وے میں قدیم ترین ستاروں کی عمر
24 کروڑ
مرکز کے گرد سورج کا مداری وقت
220 کلومیٹر فی سیکنڈ
مرکز کے گرد سورج کی رفتار
600 کلومیٹر فی سیکنڈ


$(".timeline-item").hover(function() { $(".timeline-item").removeClass("active"); $(this).toggleClass("active"); $(this).prev(".timeline-item").toggleClass("close"); $(this).next(".timeline-item").toggleClass("close"); });